محمد بن سلمان کے دعوے و اعترافات
سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے نیویارک میں یہودی اداروں کے نمائندوں سے اپنی ملاقات میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ فلسطین سعودی حکومت کی ترجیحات میں نہیں ہے دعوی کیا کہ فلسطینیوں نے گذشتہ چالیس برسوں میں یکے بعد دیگرے بہت سے مواقع گنوا دیئے اور اب وقت آگیا ہے کہ تجاویز کو مان لیں یا شکایت نہ کریں-
گذشتہ بیس مارچ کو نیویارک میں یہودی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات میں محمد بن سلمان کے بیانات کا چند پہلؤوں سے جائزہ لینا چاہئے-
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان فلسطین کے موضوع میں یکجہتی پیدا ہوچکی ہے اور یہ حقیقت امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا نیا دارالحکومت اعلان کرنے کے بعد کہ جو صدی معاہدہ کے عنوان سے معروف ہوا ، ظاہر ہوچکی ہے- فلسطین کے ادارہ انٹیلیجنس کے سربراہ ماجد فرج نے جنوری دوہزاراٹھارہ میں ریاض میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کے بعد خبردی تھی کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز صدی معاہدے سے اتفاق رکھتے ہیں- بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے بارے میں امریکہ اور سعودی عرب کے حکام کے درمیان ہماہنگی کے بارے میں پہلے سے ہی گمان ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم اب سعودی ولیعہد نے اس کا کھل کر اعتراف کرلیا ہے-
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سعودی ولیعھد کے بیانات کا یہ حصہ کہ فلسطین ، سعودی عرب کی ترجیحات میں نہیں ہے، بھی ایک حقیقت ہے- انیس سو ستر کے عشرے میں انیس سو تہتر کی جنگ کے بعد سعودی عرب نے بعض دیگر عرب ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے مغربی حامیوں کو تیل کی فروخت روک دی تھی کہ جو تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافے کا باعث بنی تھی- مغرب خاص طور سے امریکہ کے ہاتھوں بحران کو کنٹرول کرنے ، سعودی حکام کی امریکہ سے وابستگی میں اضافہ ، اور ان کی طاقت کا دارو مدار واشنگٹن پر ہونے کے باعث تقریبا چالیس سالوں بعد اس وقت سعودی ولیعہد نے اعتراف کرلیا ہے کہ فلسطین، سعودی عرب کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے-
تیسرا نکتہ ، بن سلمان کا دعوی ہے - محمد بن سلمان مدعی ہیں کہ فلسطین ، تجاویز کو مسترد کرکے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی جاری رہنے کا باعث بنا ہے- اہم سوال جس کا جواب سعودی ولیعھد کو دینا چاہئے یہ ہے کہ فلسطینیوں کو گذشتہ چالیس برسوں کے دوران کون سی تجویز دی گئی جسے انھوں نے مسترد کردیا ہے؟ صیہونی حکومت کے ساتھ فلسطین کے تعلقات پر ایک نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تعلقات میں اکثر جنگ و جرائم کا ہی دور دورہ رہا ہے- حالیہ تین عشروں میں رہنماؤں کا قتل ، تین انتفاضہ اور تین جنگیں اور اس وقت حق واپسی کے مظاہروں کے بعد جرائم ، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی حقیقت کے عکاس ہیں- دسیوں ہزار فلسطینیوں کی شہادت ، پچاس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی دربدری و جلاوطنی اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ اور ان کے گھروں کا ڈھایا جانا ان واقعات کے ثمرات و نتائج تھے- فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے جرائم کی عالمی اداروں کی جانب سے ہمیشہ مذمت کی گئی ہے جبکہ امریکہ سلامتی کونسل میں ہمیشہ ہی اسرائیل کی حمایت کرتا ہے تاہم دسمبر دوہزارسترہ میں اسرائیل مخالف قرارداد منظور ہوگئی لیکن سعودی ولیعھد فلسطینیوں کوہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں -
سعودی ولیعہد نے اپنے فلسطین مخالف بیانات سے تاریخ میں تحریف اور صیہونی حکومت کو حیرت زدہ کردیا اور عالم اسلام میں سعودی عرب کی تنہائی و گوشہ نشینی کے عمل کو تیزکردیا ہے- اقتدار کا نشہ سعودی ولیعہد کے اس طرح کے تلخ بیانات کا باعث بنا ہے- سعودی ولیعھد کومزید توجہ سے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے اورعراق میں صدام، مصر میں حسنی مبارک اور تیونس میں بن علی جیسے ڈکٹیٹروں کے انجام سے عبرت لینا چاہئے ورنہ اگر وہ امریکہ و اسرائیل کی حمایت سے اقتدار تک پہنچ بھی گئے تو بھی ان کی بادشاہت زیادہ دیر تک باقی نہیں رہے گی کیونکہ موضوع فلسطین، عالم عرب سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے اقدار کا حصہ شمار ہوتا ہے-