یونیسیف نے افغان بچوں کے قتل عام کی مذمت کی
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے ایک بیان میں افغانستان کے صوبے قندہار میں دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی ہے جس میں گیارہ بچے جاں بحق ہوگئے-
ھنریٹا ایچ فور Henrietta H. Fore نے اس بیان میں افغانستان کے تمام متحارب فریقوں سے اپیل کی ہے کہ بچوں کی سلامتی کا تحفظ کریں- گذشتہ روزقندہار میں ایک اسکول کے قریب خودکش حملے میں گیارہ بچے جاں بحق اور آٹھ دیگر زخمی ہوگئے تھے اس کے علاوہ کابل میں دو اوردہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں کہ جن کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے تیس سے زائد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ان دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت اور قوم کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ انہوں نے نہتے عوام بالخصوص صحافی برادری کے خلاف دہشتگردوں کی سفاکانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو چاہئے کہ افغانستان میں قیام امن و سلامتی کے لئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ اقدامات کرے.
اس امر کے پیش نظر کہ افغانستان میں مختلف دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں اور وہ دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دے رہے ہیں اس لئے قطعی طورپر نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا گروہ ، اور کن مقاصد کے مدنظر دہشت گردانہ حملے کر رہا ہے۔ لیکن جغرافیائی لحاظ سے یہ دہشت گردانہ کارروائیاں خاص اہداف اور مفہوم کی حامل ہیں۔ قندہار میں بچوں کا قتل کہ جو افغانستان میں طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس گروہ کے لئے یہ ٹھوس انتباہ ہے کہ تشدد آمیز حملوں کا جاری رہنا، خواہ وہ کسی بھی عنوان سے ہو، پشتون آبادی والے علاقوں میں خونریز تشدد پر منتج ہوسکتا ہے کہ جس کا عامل، قندہار کے عوام کی نظر میں طالبان گروہ ہے۔
افغانستان کے حکام کے بقول اس ملک میں بیس سے زائد دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں کہ جن سے مقابلے کے لئے گروہ طالبان کے ساتھ ٹھوس تعاون کی ضرورت ہے اس لئے کہ تمام تشدد پسند گروہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں، طالبان اور یا داعش گروہ کے نام پر انجام دیتے ہیں۔
افغانستان میں سیاسی مسائل کے ماہر احمد بہروز کہتے ہیں: فوجیوں کے خلاف حملے اور ان کے قتل عام خاص طور پر بچوں کے قتل کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ یہ اقدام دینی نقطہ نگاہ سے اور انسان دوستانہ بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے بھی قابل مذمت ہے اور افغانستان میں اس پر روک لگائے جانے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں کو بھی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے اور دہشت گردوں کے مقابلے میں عوام کے دفاع اور ان کی سلامتی کے لئے تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہئے- خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ افغانستان کی حکومت اور عوام خود کو انتخابات کے لئے تیار کر رہے ہیں، افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آنا خلاف توقع نہیں ہے۔ افغانستان پر قبضے کا جاری رہنا بھی اس ملک میں خونریز تشدد کے جاری رہنے کی ایک اور وجہ ہے اور اسے بھی ختم ہونا چاہئے کیوں گروہ طالبان امن کے عمل میں شامل ہونے کے لئے افغانستان سے غاصبوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہا ہے-
افغانستان میں سیاسی مسائل کے ماہر ایمل فیضی کہتے ہیں امریکی مفادات کے لئے انجام دی جانے والی اس ملک کی جارحانہ پالیسیاں ، افغان عوام کی جانیں ضائع ہونے کا سبب بنی ہیں اور درحقیقت افغانستان کے عام شہریوں کا قتل عام واشنگٹن کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ جسے ختم ہونا چاہئے۔
بہرصورت افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کے خاتمے کی واحد راہ حل اس ملک میں امن کے عمل میں پیشرفت ہے کہ جس میں طالبان گروہ اہم اور بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسی سبب سے افغان حکام نے ہمیشہ طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ہتھیار زمین پر رکھ کر افغانستان میں برادر کشی کا خاتمہ کریں۔