ہندوستان کے ساتھ اختلافات کے حل پر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر کی تاکید
پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان اختلافات کے حل پر تاکید کی ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے ہندوستان کے ساتھ اختلافات کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک تا ابد ایک دوسرے کے دشمن نہیں رہ سکتے۔
اسلام آباد میں سفارت اوراس کے اثرات کے بارے میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اختلافات کو حل ہونا چاہیے تاکہ دونوں ممالک پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اگر ہندوستان بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہوجائے تو وہ بھی اس کے فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ ناصر خان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ہندوستان کو وسطی ایشیا کے ملکوں تک رسائی دینے کو تیار ہے۔ قدیم زمانے سے اقتصادی تعلقات، عالمی سطح پر ملکوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔
اس کے باوجود پاکستان اور ہندوستان نے کبھی بھی اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لئے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ برصغیر کے لئے امن منصوبے کے طور پر، ایران کی گیس پائپ لائن منصوبے پر برسوں سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اختلافات کے سبب عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے جبکہ یہ پائپ لائن ان دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ہی ان کے درمیان اختلافات کے حل میں بھی مدد کرسکتی ہے۔ اس وقت بھی اسلام آباد کے نقطہ نگاہ سے پاک چین اقتصادی راہداری نے نئی دہلی کے لئے مناسب موقع فراہم کیا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تعاون سے برصغیر میں امن و صلح کے قیام میں مدد مل سکے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقریبا سات عشروں سے کشمیر کی ملکیت اور بعض سرحدی علاقوں کے بارے میں آپسی اختلافات پائے جاتے ہیں جو تمام شعبوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثرانداز ہیں۔
ہندوستان کی پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر رشمی سوڈا پوری کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں ایک دیرینہ اختلاف ہے اور کئی عشروں سے اس علاقے میں بدامنی کا پایا جانا اس مسئلے کے حل کے لئے ضروری عزم و ارادے کے فقدان کی علامت ہے۔ اور ان برسوں کے دوران دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں کوئی خاص کوشش نہیں کی ہے۔
اس سلسلے میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی معاشی فروغ اور عوامی فلاح و بہبود کے نعرے کے ساتھ برسر اقتدار آئے تھے۔ چین کے صدر شی جین پینگ نے بھی حال ہی میں مودی کو دعوت دے کر اور افغانستان میں مشترکہ اقتصادی منصوبوں پر عملدرآمد کے تعلق سے کوشش کی ہے کہ کسی طرح ہندوستان کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں تعاون کے لئے ترغیب دلائیں۔ کیوں کہ ہندوستان، اس اقتصادی راہداری روٹ کے کشمیر سے گزرنے کا مخالف ہے۔
بہر صورت دنیا میں تیزی کے ساتھ رونما ہونے والی معاشی تبدیلیاں، ٹرانزٹ روٹس کی اہمیت کو دوچنداں کردیتی ہیں- اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان بھی اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر اقتصادی راہداری سے حاصل ہونے والے فوائد سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں اور اپنی اقتصادی گنجائشوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔