ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں برطانیہ کا متضاد رویہ
ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکی صدر کے فیصلے کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی امریکہ کو اس بین الاقوامی معاہدے پر عمل کرنے کے لئے ترغیب دلانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں
فرانس کے صدر اور جرمنی کے صدراعظم کے دورہ واشنگٹن کے بعد برطانوی وزیرخارجہ بوریس جانسن پیر کو واشنگٹن کے لئے روانہ ہوں گے تاکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ایٹمی سمجھوتے میں باقی رہنے کی تشویق دلائیں- امریکی صدر کو ہر ایک سو بیس روز بعد ایران کے خلاف معلق ایٹمی پابندیوں کی مدت میں توسیع کرنا ہوتا ہے- ایٹمی سمجھوتے کے مطابق ایران پر دوبارہ ایٹمی پابندیاں عائد کرنے سے اجتناب اس سمجھوتے کا حصہ ہے اس کے باوجود ٹرمپ نے جنوری کے مہینے میں دھمکی دی ہے کہ وہ مئی میں ایران کے خلاف پابندیوں کی منسوخی کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے، مگر یہ کہ یورپی ممالک ، امریکی شرائط قبول کرلیں۔
ایران کے میزائلی پروگرام کو روکنا ، معائنے کا دائرہ بڑھانا اور ایٹمی سمجھوتے کی مدت میں تبدیلی، ٹرمپ کے وہ جملہ شرائط ہیں جو امریکی حکومت کے معاہدے سے پوری طرح تضاد رکھتے ہیں- اس طرح کے رویے کے پیش نظر برطانیہ نے ایٹمی مذاکرات میں شامل ایک یورپی ملک کی حیثیت سے حالیہ دنوں میں امریکی صدر کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں- البتہ لندن نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے متضاد راستہ اختیار کیا ہے- ایک طرف دنیا کے دوسرے ممالک کی مانند برطانیہ بھی ایٹمی سمجھوتے کو جاری رکھنے اور اس میں امریکہ کے باقی رہنے پرتاکید کرتا ہے اور دوسری جانب ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایران کی علاقائی سرگرمیوں اور اس کے میزائلی پروگرام کے بارے میں تکمیلی ایٹمی مذاکرات کو ضروری قراردیتا ہے-
برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کا کہ جو ایٹمی مذاکرات میں شامل رہے ہیں امریکی صدر کو متضاد پیغامات بھیجنا ، امریکی صدر کو اس معاہدے کو درہم برہم کرنے کی ترغیب دلاتا ہے جبکہ ایک جامع اور شفاف دستاویز کی حیثیت سے ایٹمی سمجھوتے میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ایک ایک ملک اور بین الاقوامی ادارے کی ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے - اس دستاویز کی بنیاد پر ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی نے اپنی گیارہ رپورٹوں میں ایران کی جانب سے معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد کی تصدیق و توثیق کی ہے جبکہ امریکی فریق ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون میں دلچسپی رکھنے والے ممالک اور کمپنیوں کو مسلسل طور پر ڈرا دھمکا کر اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے- حکومت برطانیہ کے ترجمان ایڈوین ساموئل کا کہنا ہے کہ لندن کی نظر میں ایٹمی سمجھوتے کی منسوخی امریکہ سمیت اس بین الاقوامی معاہدے میں شامل کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے-
اس عمل کےجاری رہنے سے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ نہ صرف تباہ ہوجائے گا بلکہ ٹرانسلاٹلانٹک تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے- امریکی پابندیاں کہ جو ثانوی پابندیوں کے عنوان سے مشہور ہیں، کے دوبارہ نافذ ہونے سے یورپی کمپنیوں کو بھی نقصان پہنچے گا ان کمپنیوں نے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کے بعد گذشتہ تین برسوں میں ایران میں کافی سرمایہ کاری کی ہے جس سے یورپی تاجروں کے لئے مناسب مواقع پیدا ہوئے ہیں- اس بنا پر اس تعاون کو جاری رکھنے کے لئے امریکیوں کی جانب سے جاری رکاوٹیں یورپیوں کے لئے سرمایہ کاری اور کام کے مواقع ہاتھ سے نکل جانے کا باعث ہوں گی- اسی بنا پر گذشتہ ہفتوں میں یورپی حکام نے ایٹمی سمجھتے کے تحفظ کی کوششیں تیز کردی ہیں اس کے باوجود عالمی موضوعات پر امریکہ کی مفادپرستانہ نظر اورایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں ٹرمپ کی خودغرضی کی روش نے واشنگٹن کے یورپی شرکاء سمیت سب کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے-