عفرین کی کارروائیوں میں کامیابی کے بارے میں اردوغان کا دعوی
ترکی کے صدر نے دعوی کیا ہے کہ اس ملک کی فوج نے شمالی شام کے شہر عفرین کی کارروائیوں میں بہت سے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے-
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے قیصری صوبے میں اپنی تقریر میں، شمالی شام میں ترک حکومت کے مخالف کرد گروہوں کو سرکوب کرنے کو اپنے دورہ صدارت میں اپنی حکومت کی کامیاب کارکردگی قرار دیا اور کہا کہ ترکی کی فوج کے حملے شمالی شام میں ترک حکومت کے مخالف، کرد گروہوں کے خلاف جاری رہیں گے-
انقرہ نے بیس جنوری 2018 کو مخالف کردوں کو سرکوب کرنے کے لئے عفرین پر حملہ کیا تھا- بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے محقق میشائیل ینگ نے انقرہ کے توسط سے شمالی شام پر قبضے کے سلسلے میں لکھا ہے کہ رجب طیب اردوغان، اس اقدام کے ذریعے محض قوم پرستی کی فضا قائم کرنے اور ترکی کو درپیش انتخابات میں اسے استعمال کرنے کے درپے ہیں۔
میشائل ینگ کے نقطہ نظر اور اردوغان کی باتوں کے پیش نظر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اردوغان ایسی حالت میں عفرین کی کارروائیوں میں اپنی کامیابیوں کی بات کر رہے ہیں کہ ترکی، شمالی شام میں اپنےاعلان شدہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس ملک کی فوج میں دیگر کرد نشیں علاقوں میں اپنی فوجی کارروائیوں میں توسیع کی طاقت نہیں ہے۔ اسی طرح قابل ذکر بات یہ ہے کہ ترک فوج کی کارروائی سے نہ صرف ترکی کے خلاف سیکورٹی کے خطرات میں کمی آئی ہے بلکہ ان خطروں میں اضافہ ہوگا-
انقرہ نے ایک جانب شام اور عراق کے سرکاری سطح پر احتجاج کے باوجود، بین الاقوامی قوانین، اور دونوں ملکوں کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملکوں کے احترام کا قائل نہیں ہے۔ تو دوسری جانب ترکی کے پڑوسی ملکوں کی نظر میں اردوغان کی پالیسیاں ہمیشہ ان کے لئے دھمکی آمیز رہی ہیں- اور یہ مسئلہ ترکی اور پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہونے کا باعث بن سکتا ہے-
اسی طرح شمالی شام کے عوام اس وقت ترکی کی جارحیت پر غصے میں ہیں ۔ ان کارروائیوں کے دوران بہت سے عام شہری متاثر ہوئے ہیں اور اس وقت وہ اپنے گھروں سے جبری کوچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں- یہ مسئلہ ترکی کے ساتھ پڑوسی ملکوں کی سرحدوں پر بسنے والوں کے درمیان دشمنی کا باعث بنے گی- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سرحد پر بسنے والوں کا کردار ٹرانزٹ لائنوں کو محفوظ بنانے میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے-
دوسری جانب شمالی شام میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی، مستقبل میں پورے علاقے اور پہلے درجے میں ترکی کے لئے بہت زیادہ سیکورٹی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔ وہ چیز جو عربوں اور کردوں کی آبادی کے ڈھانچے کی صورت میں وجود میں آ رہی ہے، ممکن ہے کہ شام کے اس علاقے میں قومی جنگ شروع ہونے کا باعث بن جائے۔
رجب طیب اردوغان ترکی کی پوزیشن کو علاقے میں ایک استحکام بخشنے والے ملک کے طور پر ظاہر کرسکتے ہیں اور اپنے اس قسم کے اقدامات کے بجائے تعمیری اقدامات اٹھاتے ہوئے وہ انقرہ اور ترکی کے پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کے بجائے، تعلقات کے بہتر ہونے میں مدد کرسکتے ہیں
دمشق میں فوجی ماہر ھیثم حسون نے شمالی شام میں امریکہ اور ترکی کی مداخلتوں کے بارے میں العالم ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ شام میں امریکہ اور ترکی کی پالیسی اور اسٹریٹیجی تبدیل ہوئی ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب داعش ان کے لئے شام میں کچھ نہیں کرسکتے اس لئے اب امریکہ اور ترکی خود ہی شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں براہ راست کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور ترکی کی یہ مداخلتیں، ان کے مخصوص مفادات کے دائرے میں انجام پا رہی ہیں کہ جن میں سے بعض میں تضاد پایا جاتا ہے اور اسی سبب سے ان کے درمیان رقابت بھی پائی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات، شام میں مداخلت پسند حکومتوں کے تباہ کن اقدامات اور خطروں میں شدت کا سبب رہے ہیں۔