May ۱۳, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۶ Asia/Tehran
  • فرانس میں ایک بار پھر دہشت گردانہ حملے

فرانس میں ہفتے کی رات کو ایک بار پھر دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے-

حملہ آور نے چاقو کے ساتھ  راہگیروں پر حملہ کرنا شروع کردیا کہ جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوگئے - فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے اس دہشت گردانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس کو ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیمت چکانی پڑی ہے- 

فرانس میں 2015 سے اب تک متعدد مرتبہ دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں کہ جس کے باعث دنیا میں سیاحت کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے اس ملک کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے اور فرانسیسی باشندوں کے درمیان بھی امن و سلامتی کے احساس میں کمی آئی ہے- پیرس میں 2015 میں جنوری اور نومبر کے حملے، اور جولائی 2016 میں ساحلی شہر نیس میں دہشت گردانہ حملہ اور پھر اپریل 2017 کے حملے میں دسیوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئےتھے-

جنوری دو ہزار پندرہ میں پیرس میں چارلی ایبڈو جریدے کے دفتر اور یہودیوں کی ایک دکان پر دہشت گردانہ حملے کے بعد کہ جس میں سترہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، فرانسیسی حکومت نے دہشت گردوں کی شناخت اور دہشت گردانہ حملوں سے قبل ازوقت آگاہ ہونے کے لئے مختلف منصوبوں پرعملدرآمد کیا۔ جن کے خلاف فرانس میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا تھا۔ ان اقدامات میں انٹیلی جنس لاء کے نام سے فرانس کی خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ کرنا بھی شامل تھا کہ جس کے خلاف فرانسیسی عوام نےوسیع پیمانے پر اعتراض کیا۔ اس قانون کے مخالفین نے اسے شہریوں کی پرائیویسی پر ایک بہت بڑی ضرب قرار دیا اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں معاشرے کو کنٹرول کئے جانے سے تعبیر کیا۔

اس وقت تکفیری دہشت گردی کا، کہ جس کا نمونہ داعش ہے، سیکورٹی کے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت سے ، یورپی ملکوں منجملہ فرانس کو سامنا ہے- سیکورٹی خطرات کی اہمیت، دہشت گردانہ حملوں کے جاری رہنے اور یورپ میں ان دہشت گردوں کے اپنے وطن واپس لوٹنے سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کے باعث بڑھ گئی ہے- مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر اور" شام میں مغرب کی غلطیاں" نامی کتاب کے مصنف فرڈریک پیشون  Frédéric Poisson ،  کا خیال ہے کہ فرانس امریکہ کا ساتھ دے کر داعش کے وجود میں آنے کا ذمہ دار ہے- فرانسیسی حکام کو اس وقت تاریک افق، یعنی اس ملک میں تکفیری دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں شدت آنے کا سامنا ہے اور ان کے توسط سے نئی دہشت گردانہ کاروائیاں بھی آئندہ دنوں میں انجام پا سکتی ہیں- 

جرمن پارلیمنٹ میں بائیں بازو دھڑے کی سربراہ سارا ویگن کنشت  Sahra Wagenknecht  کا خیال ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ، مشرق وسطی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں کا ماحصل ہے- انہوں نے دہشت گردی کے خلاف مغرب کی جنگ کے منصوبے کو ایک خوفناک اور ناقابل یقین ریاکاری سے تعبیر کیا ہے- 

دہشت گردانہ واقعات، فرانس میں ہنگامی صورتحال برقرار کرنے کا باعث بنے تھے کہ جسے میکرون نے نومبر 2017 میں ختم کردیا تھا- دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں یورپی یونین میں سرحدوں پر کنٹرول میں اضافہ ہوا ہے، اور سیاحت کی صنعت میں کمی آئی ہے نیز پناہ گزینوں کو قبول کرنے میں یورپی حکومتیں مزید سختی کا مظاہرہ کر رہی ہیں- فرانس نے برطانیہ ، امریکہ اور عرب اتحادیوں  کے ساتھ مل کر دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش کو وجود میں لانے اور ان کو تقویت پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان کے اقدامات کے نتائج، خود ان کو ہی بھگتنا پڑ رہے ہیں- 

 

 

 

     

ٹیگس