افغانستان کی جنگ میں ٹرمپ حکومت کی خفیہ کاری
افغانستان کی تعمیر نو میں امریکہ کے خصوصی معائنہ کار نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر افغانستان کے امور میں خفیہ کاری کا الزام لگایا اور اس کی وجہ افغانستان میں واشنگٹن کی واضح اور منظم اسٹریٹیجی کا فقدان بتایا-
“جان سپکو” کے بقول ، امریکہ کی وزارت دفاع نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال سے متعلق بعض اطلاعات کو شائع نہ کریں۔ ایسی اطلاعات کہ جو اس سے قبل میڈیا کے اختیار میں دی جا چکی ہیں- سپکو نے اعلان کیا ہے کہ پنٹاگون نے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں سے متعلق اعداد و شمار اور اسی طرح افغانستان کی سیکورٹی فورسز کی جانوں کے ضیاع کو خفیہ درجہ بندی میں قرار دیا ہے۔
البتہ یہ اعداد و شمار افغانستان میں خبری حلقوں اور دیگر میڈیا کی جانب سے شائع ہوئے ہیں لیکن امریکی حکومت اپنے اداروں کی جانب سے ان کی تائید میں دلچسپی نہیں رکھتی- امریکہ نے 2001 میں دہشت گرد گروہوں القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے بہانے سے افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا - افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کو سترہ سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود نہ صرف اس ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے بلکہ داعش دہشت گرد گروہ کے وجود میں آنے سے یہ صورتحال مزید بدتر ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں بعض وجوہات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- اول تو یہ کہ امریکہ اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ کے لئے تشدد پسند اور انتہا پسند گروہوں کو استعمال کر رہا ہے - دوسرے یہ کہ طالبان اور القاعدہ کی تشکیل میں خود امریکہ کا ہاتھ ہے اور وہ ان گروہوں کو اپنے مفادات پورے کرنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے- تیسرے یہ کہ امریکہ نے گذشتہ سترہ برسوں میں ہمیشہ افغانستان کی بحرانی صورتحال کو اپنے فائدے میں کنٹرول کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ بحران کے جاری رہنے کی صورت میں افغانستان میں اپنے فوجی موجودگی جاری رہنے کی توجیہ کرنے کے درپے ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی نئی تعریف پیش کی ہے کہ جو افغانستان کے معدنی ذخائرپر تسلط اور ان کو تباہ و برباد کرنے پر مبنی ہے-
افغانستان میں سیاسی مسائل کے ماہر وحید مژدہ کہتے ہیں : افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا مقصد، پڑوسی ملکوں منجملہ چین اور مرکزی ایشیاء کے ملکوں کے لئے مسائل و مشکلات کھڑی کرنا ہے-
افغانستان کے ممبر پارلیمنٹ عبیداللہ بارکزئی کہتے ہیں: امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل اور اپنے اہداف منجملہ روس اورچین جیسے اپنے حریفوں سے مقابلے کے مقصد تک رسائی کے لئے، افغانستان میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے - واشنگٹن چاہتا ہے کہ افغانستان کے قدرتی اور زیر زمین ذخائر کو خفیہ طور پر برباد کرکے، اپنی موجودگی کی توجیہ کرے-
افغانستان میں امریکہ کے دیگر اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ اس ملک کو علاقے میں اپنے فوجی اڈے میں تبدیل کردے اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کا دائرہ مرکزی ایشیا ، قفقاز ، چین اور روس تک پھیلا دے- واشنگٹن اس کوشش میں ہے کہ شمالی افغانستان کے علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کو منظم کرکے ان کو مرکزی ایشیا کے ملکوں میں داخل کرے اور اس طرح سے چین اور روس کے ساتھ ان کی قومی سلامتی کو خطرے سے دوچار کردے- حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ علاقے کو بدامن کرنے کے ذریعے، علاقے کے عرب ملکوں کے پیسوں کو دودھ دینے والی گائے کی مانند دوہنے کے درپے ہیں-
افغانستان کےسابق صدر حامد کرزئی کہتے ہیں کہ گذشتہ دوعشروں کے دوران دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی، نہ صرف ان گروہوں کے خاتمے پر منتج نہیں ہوئی ہے بلکہ دہشت گردوں کی تقویت کا سبب بھی بنی ہے۔
بہرحال افغانستان میں ایک غاصب ملک کی حیثیت سے امریکی فوجیوں کی موجودگی اور ان کی تعداد میں اضافہ، درحقیقت گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے کے دوران افغانستان میں برطانیہ اور سوویت یونین کے شکست خوردہ تجربے کی تکرار ہوگی اس لئے کہ افغان عوام نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ہرگز غاصبوں کو اپنے ملک میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دیں گے اور جیسا کہ سابق جہادی رہنما اسماعیل خان نے بھی خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو، افغانستان میں غاصبوں کے انجام سے سبق لینا چاہئے۔
اگرچہ امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے، اس تشویش کے سبب کہ کہیں افغانستان، امریکہ کے لئے ایک اور ویتنام میں تبدیل نہ ہوجائے،امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو افغانستان سے باہر نکال لیا تھا۔