فلسطین امت مسلمہ کا پرانا زخم
فلسطین اور بیت المقدس کا مسئلہ، صیہونی حکومت کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے کہ جو سازشی معاہدے کرنے کے ذریعے ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس کا واحد راستہ اسلامی مزاحمت کو مستحکم کرنا اور غاصب و جارح حکومت کے مدمقابل ڈٹ جانا ہے-
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے رواں سال جنوری کے مہینے میں اسلامی ملکوں کے پارلیمانی اسپیکروں سے اپنے خطاب میں فلسطین کے دفاع کو سب کا فریضہ قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ صیہونی حکومت کا مقابلہ بے فائدہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کے اذن اور لطف و کرم سے صیہونی حکومت کے مقابلے میں مجاہدت نتیجہ خیز ثابت ہو گی، جس طرح کہ ماضی کے برسوں کے مقابلے میں تحریک استقامت نے کافی پیشرفت کی ہے۔
اس وقت فلسطین کی صورتحال اسی حقیقت کی مصداق ہے اور علاقے میں پائیدار اور منصفانہ امن کا قیام صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کا مکمل خاتمہ ہو ، تمام فلسطینی پناہ گزیں اپنے وطن واپس لوٹ جائیں ، اور تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ریفرنڈم کے انعقاد کے ساتھ ہی فلسطین کے مستقبل اور اس کے نظام کا تعین ہو اور آخرکار ایک فلسطینی حکومت کی تشکیل ہو کہ جس کا دارالحکومت بیت المقدس قرار پائے-
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے اتوار کی رات کو، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی سالگرہ کے موقع پر اپنے ایک بیان میں قدس شریف کو فلسطین کا الگ نہ ہونے والا حصہ قرار دیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق بیت المقدس فلسطین کا اٹوٹ حصہ ہے جس میں سفارتخانے کی منتقلی کی کوششیں عالمی معاہدے سمیت 478 اور 2334 معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے- اس بیان میں آیا ہے کہ بلا شبہ فلسطین پر مسلسل قبضہ جاری رہنا اور ٹرمپ حکومت کی جانب سے القدس شریف کو جابر صہیونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ، فلسطینی قوم کےعزم کو مزید مضبوط کرے گا-
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ دسمبر 2017 کو علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی وسیع مخالفتوں کے باوجود بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت متعارف کرایا تھا اور امریکی وزارت خارجہ نے بھی چودہ مئی 2018 کو صیہونی حکومت کا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے-
قابل ذکر ہے کہ چودہ اور پندرہ مئی کو فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضے کی ستر ویں برسی کے موقع پر پوری دنیا میں چالیس سے زائد بڑے مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ چودہ مئی کی تاریخ کو یوم نکبت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
تل ابیب سے اسرائیلی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کئے جانا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک نعرہ بھی شمار ہوتا ہے اور فروری 2017 سے ، جب سے ٹرمپ نے پینتالیسیویں امریکی صدرکی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا ہے، اسے اپنی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے لیکن ہر مرتبہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس کا یہ منصوبہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کا منصوبہ، کہ جس کی، 1995 میں امریکی کانگریس میں منظوری دی گئی تھی، گذشتہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات منجملہ عالمی برادری کے ردعمل اور سفارتی نتائج کے خوف سے، کہ جو ممکن ہے امریکہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہو، ایک بار بیل کلنٹن، جارج بش اور بارک اوباما کی حکومتوں کے دور میں ملتوی کردیا گیا تھا۔ اور یقینا ٹرمپ کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کسی طرح کی غلطی، ان کو ٹھوس خطروں سے دوچار کردے گی۔
اس وقت فلسطین کی سرنوشت حساس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس خطے کی جو حکومتیں، سعودی حکومت کی طرح امریکیوں کی مدد اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں تاکہ اپنے بھائیوں سے جنگ کریں، وہ کھلی خیانت کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ صیہونی ایک دن نیل سے فرات کا نعرہ لگاتے تھے لیکن آج اپنی حفاظت کے لئے دیوار کھڑی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فلسطین، تاریخی لحاظ سے بحر سے نہر تک، یعنی پوری سرزمین فلسطین پر مشتمل ہے اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس میں کوئی خلل واقع نہیں ہو سکتا۔
واضح رہے کہ بیت المقدس فلسطینیوں اور عالم اسلام کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس مسئلے پر شدید حساسیت پائی جاتی ہے۔ بیت المقدس میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی کسی بھی توسیع پسندانہ پالیسی کی ہمراہی کرنا امریکہ کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا اور اس سے ٹرمپ کے سامنے ان کی متنازعہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے مزید چیلنجز کھڑے ہوجائیں گے اور ان پر جاری تنقیدوں میں اضافہ ہوجائے گا اور راکھ کے نیچے دبی اس آگ کو بھڑکا کر امریکہ کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات برانگیختہ کردے گی جن کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔
ان ہی حقائق کے پیش نظر امریکہ کی حکومتوں نے اب تک کانگریس کی مکرر درخواستوں کے باوجود اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے پرہیز کیا ہے لیکن امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اب اس ریڈلائن کو کراس کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ کانگریس کے اس قانون پر عمل کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جائے - مجموعی طور پر غاصب صیہونی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے، اسرائیل کا ساتھ دینے کے امریکی اقدامات کا اسلامی ملکوں کے سفارتی ردعمل سمیت مختلف ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امریکہ الگ تھلگ پڑجائے گا۔