May ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۰ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیاں

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے امریکہ نے گذشتہ چالیس برسوں میں ہر سال یہی کوشش کی ہے کہ مختلف مسائل و مشکلات کھڑی کرکے ایران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جائے- اور اس ہدف کو پانے کے لئے ایران کا بائیکاٹ اور پابندیاں عائدکرنا، امریکہ کا ایک ہتھکنڈہ رہا ہے-

پابندیوں کے کیلنڈر کے مطابق پہلی خرداد 1359 ہجری شمسی مطابق 22 مئی 1980 سے امریکی حکومت نے سرکاری طور پر ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ شروع کیا - امریکہ نے 1980 میں، تہران میں امریکی سفارتخانے یا جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بعد سے ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں اور باضابطہ طور پر ایران کے خلاف اقتصادی محاصرے کا آغاز کردیا- اور پھر اس کے بعد کے برسوں میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں نشیب و فراز آتا رہا- 1995 میں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے مزید پابندیاں عائد کردیں جس کے تحت امریکی تیل کی کمپنیوں کو ایران کے تیل اور گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے روک دیا گیا- اسی طرح ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ڈومیٹو اور ایلسا قانون کے تحت ختم کردئے گئے- 2001 سے اس میں مزید شدت آئی اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی پالیسی کے شعبے میں ایران کی شخصیات اور غیر سرکاری کمپنیوں کے خلاف بھی اقتصادی پابندی عائد کردی گئی-

امریکہ نے ایران کے خلاف، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام، دہشت گردی سے مقابلے، ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ، ماحولیات کے تحفظ اور ایران سے علاقے کو لاحق خطرات اور تنازعات کی روک تھام جیسے بہانوں سے یہ پابندیاں عائد کیں- جبکہ امریکہ ان تمام موارد میں ، پیرس کے ماحولیاتی معاہدے کی خلاف ورزی سے لے کر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے، دہشت گردی کی حمایت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا اصلی ملزم ہے اس لئے اسے پہلے اپنے غیر انسانی اقدامات کے بارے میں جواب دہ ہونا چاہئے-

امریکی دباؤ اور پروپیگنڈوں کے ذریعے، سلامتی کونسل میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف  نئی پابندیوں کی صورت میں قرارداد منظور کی گئی- یہ سناریو ایٹمی معاہدے پر اتفاق اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی بنیاد پر 20  جولائی 2015 کو متوقف ہوگیا لیکن ابھی ایٹمی معاہدے کو ہو‏ئے دوسال کا بھی عرصہ نہیں گذرا تھا کہ ٹرمپ نے اس معاہدے کو برا معاہدہ قرار دیا اور ایران کے میزائل پروگرام کو خطرہ ظاہر کرنے کے دعوے اور علاقے میں ایران کی مداخلتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا تاکہ ایران کے خلاف پابندیوں کو دوبارہ پلٹانے کا بہانہ حاصل کرسکے- واشنگٹن کی یہ کوشش رہی ہے کہ ایران کو مفلوج کردینے والی پابندیاں عا‏ئد کرنے کے ذریعے ایران کو کمزور کردے اور اسے جھکنے پر  مجبور کردے۔ لیکن یہ امریکی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا ہے اور نہ کبھی بھی ہوسکے گا- 

امریکی نظریہ پرداز نوام چامسکی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہتے ہیں ٹرمپ امریکی قوت و اقتدار کے برخلاف قدم اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا یہ کام بطور عمد ہے یا غیر ارادی ہے لیکن وہ خود کو عالمی رائے عامہ اور میڈیا کی توجہات کا مرکز بنانا چاہتے ہیں- اور اس لئے کہ میڈیا کی توجہ ان سے نہ ہٹے وہ ہر روز احمقانہ اور دیوانے پن کا کوئی نہ کوئی کام انجام دیتے یا بیان دیتے رہتے ہیں- 

ٹرمپ نے اپنے اس غیر عاقلانہ اقدام سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اسے ملت ایران کا حقیقت پسندانہ ادراک نہیں ہے - رہبر انقلاب اسلامی کے بقول اس وقت کہ جب اوباما نے امریکہ کا آہنی مکّا مخملی دستانوں میں چھپا رکھا تھا اور وہ تبدیلی کی بات کر رہے تھے اس وقت بھی ایران یہ باتیں سن کر خوش نہیں ہوا تھا تو پھر آج وہ ٹرمپ کی دھمکیوں اور لفاظیوں سے کیسے خوفزہ ہوسکتا ہے-       

      

ٹیگس