ٹرمپ حکومت ایران کے تعلق سے نا ممکن آرزوؤں کے حصول کے درپے
امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیئو نے ایک تقریر میں ایرانی قوم کے خلاف توہین آمیز اور بے بنیاد الزامات عائد کئے ہیں-
امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیئو نے ایران کے بارے میں امریکہ کی نام نہاد نئی حکمت عملی کے موضوع پر ایک نشست میں، ایٹمی معاہدے کو نشانہ بنانے کے علاوہ ایٹمی پروگرام میں ایران پر فریب کاری کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ایران نے معاہدے کی اقتصادی سہولیات سے علاقے میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے میں فائدہ اٹھایا ہے۔ پامپیئو نے دھمکی دی ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کرے گا- انہوں نے بارہ شرطیں ایران کے لئے معین کی ہیں کہ جن میں یورینئم کی افزودگی کی تمام تنصیبات کو ختم کرنا، ایران کی تمام تنصیبات کا وسیع پیمانے پر معائنہ انجام دینا ، شام اور عراق سے ایرانی فوجیوں کا انخلاء اور حزب اللہ لبنان اور حماس جیسے مزاحمتی گروہوں سے ایران کی حمایت منقطع کیا جانا شامل ہے-
پامپیئو نے کہا کہ ایران کے خلاف تمام جوہری پابندیاں بحال کر دی جائیں گی اور نئی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ امریکی وزیر خارجہ نے دعوی کیا کہ ایران اگر اپنا رویہ بدلتا ہے تو اس کے ساتھ ایک نیا سمجھوتہ طے پانے کا امکان پایا جاتا ہے۔ انھوں نے یہ دعوی ایسی حالت میں کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ نے علیحدگی اختیار کر کے پوری دنیا پر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے پر کاربند رہنے کا پابند نہیں ہے۔
پامپیئو نے یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے قانون شکن اقدام کے دوہفتے کے بعد دیا ہے کہ جسے اس نے امریکہ کی نئی حکمت عملی کا نام دیا ہے اس کے علاوہ بھی امریکہ کے نئے وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کچھ ایسی بھی باتیں کہی ہیں کہ جو ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی امریکی حکام کی دیرینہ آرزو رہی ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کے وقت سے ہی امریکہ نے ایرانی قوم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پڑوسی ملکوں کے لئے ایران کے خطرہ ہونے کا الزام لگایا ساتھ ہی امریکہ کے اس وقت کے حکام نے ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کردیں اور ایرانیوں کے ساتھ یہ دشمنی اس حد تک بڑھی کہ ایران کے خلاف صدام کے حملے کی امریکہ نے حمایت کی اور ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرایا- ایک مدت کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی افغانستان میں طالبان کا خطرہ دور کرنے میں ایران کا ساتھ دینے کے باوجود ایران کو شرارت کا محور قراردے دیا-
اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے صدر ٹرمپ، ایران کے تعلق سے ماضی کے صدور کی شکست خوردہ پالیسیوں اور اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہیں- ایسے میں جبکہ دنیا کے تمام ملکوں، بین الاقوامی اداروں اور یونینوں منجملہ یورپی یونین اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے بھی اس بات اعتراف کیا ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے تمام وعدوں کو پورا کیاہے اس کے بعد بھی امریکہ نے بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے برخلاف ایٹمی معاہدے پر عمل سے انکار کیا ہے- یہ اقدامات بھی، امن و امان کے قیام میں مدد پہنچانے اور جسے وہ مغربی ایشیا کے علاقے میں ایران کے غیر مستحکم رویوں سے مقابلے کا نام دے رہے ہیں، کے بہانے سے انجام پا رہے ہیں-
ایسے حالات میں ٹرمپ نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس سے مغربی ایشیا کا بحران مزید شدید ہوگا اور اس علاقے کو نئی جنگ میں جھونک دے گا- اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی وزیر خارجہ پامپیئو کی جانب سے پیش کی گئی بارہ تجاویز کا مقصد علاقے میں امن قائم کرنا نہیں بلکہ جنگ کی جانب دھکیلنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ چالیس برسوں کے دوران مختلف جنگیں بھی لڑیں ، اور پابندیاں بھی برداشت کی ہیں لیکن کبھی بھی امریکی دباؤ کے سامنے جھکا ہے اور نہ ہی سازباز کیاہے- اس بار بھی امریکہ کے گذشتہ چھ صدور کی طرح، ٹرمپ کی آرزوئیں بھی پوری نہیں ہوں گی-