May ۲۵, ۲۰۱۸ ۱۹:۳۳ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدہ جاری رکھنے سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کی شرائط

اسلامی جمہوریۂ ایران کی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں اور دیگر اعلیٰ حکام نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے نکلنے کے بعد اس معاہدہ سے متعلق صحیح طریقۂ کار کو اہم موضوع قرار دیا اور فرمایا کہ اس موضوع سے حقیقت پسندانہ طریقے سے نمٹنا چاہئے اور امکانات کی بنیاد پر اپنے دل کو خوش نہیں کرنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکہ کے بغیر ایٹمی معاہدہ کو جاری رکھنے کے بارے میں بعض اہم نکات کو بیان کیا۔ ان نکات میں سب سے اہم امریکہ کی طرف سے مشکل کھڑی  کئے جانے کے باوجود ایران کے اقتصادی مفادات کی تکمیل کے لئے یورپی ممالک کی ضمانت اور دو اہم موضوعات یعنی ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی موجودگی کے موضوعات میں یورپی ممالک کی عدم مداخلت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یورپی ممالک کو چاہئے کہ امریکہ کی طرف سے ایٹمی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کے تئیں اپنی غفلت اور بےتوجہی کا ازالہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کرکے کریں، فرمایا کہ تین یورپی ممالک کے سربراہان اس بات کا عہد اور وعدہ کریں کہ وہ خطے میں ایران کی موجودگی اور میزائل پروگرام  کا موضوع قطعاً نہیں اٹھائیں گے۔ ان دو اہم نُکتوں کے علاوہ ایرانی تیل کی خریداری کی ضمانت، ایران کے ساتھ نجی اور سرکاری شعبوں  کی تجارت  کے سلسلے میں یورپی بینکوں کے تعاون کی ضمانت اور ایران مخالف امریکی پابندیوں کے خلاف یورپ کا ٹھوس اقدام، یہ تین دیگر اہم نکات بھی رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کو جاری رکھنے کی شرائط کے طور پر بیان کئے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے اہم نکات ایٹمی معاہدہ میں شریک موجودہ پانچ ممالک، خاص طور سے تین یورپی ممالک یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ تبادلۂ خیال کے لئے ایرانی حکومت کا نقشۂ راہ ہیں تاکہ ایران قلیل مدت میں یہ یقین حاصل کرلے کہ ایٹمی معاہدہ امریکہ کے بغیر ایرانی قوم کے لئے مفید ہے یا نہیں۔ ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپی ممالک کی طرف سے ضروری ضمانتوں کے حصول سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کی حساسیت ایٹمی مسئلہ میں ایران کے ساتھ یورپی ممالک کے غلط رویہ کے تجربہ اور بین الاقوامی نظام میں عدم اعتماد کی وجہ سے ہے۔

یورپی ممالک نے ایٹمی معاہدہ کے دوران بھی امریکہ کی طرف سے اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا اور برطانیہ جیسے ملک نے ایران کو یلو کیک کی فروخت کے سلسلے میں مشکلات کھڑی کیں جبکہ جرمنی نے بھی ایٹمی مذاکرات کے دوران ایک بُرے پولیس مین کا کردار ادا کیا۔ اب بھی فرانس کی ٹوٹل کمپنی سمیت یورپ کی بعض بڑی بڑی کمپنیوں کے ایران کے ساتھ عدم تعاون کے اعلان اور نئی امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بارے میں شکوک و شبہات کے ماحول کی وجہ سے یورپ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو جاری رکھنے سے متعلق ایرانی حساسیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر سیاسی اور تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یورپ نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے اور یہ موضوع رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب میں بجا طور پر بیان کیا گیا نیز رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق یورپ کے مدنظر جو ایٹمی معاہدہ ہے اس کے ساتھ ایرانی اقتصاد کی ترقی نہیں ہوسکتی۔

ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپی ممالک کی اعلان شدہ پالیسی موجودہ شکل میں ایٹمی معاہدہ کو باقی رکھنے پر مبنی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپی کمپنیاں امریکہ سے ڈرنے کے سبب ایران کے ساتھ آئندہ تعاون کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں اور اس مسئلے سے ایران کے بارے میں نئے امریکی وزیر خارجہ مائک پامپیو کی اعلان کردہ 12 شرائط کے بعد یورپی ممالک کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ شکوک و شبہات امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائک پامپیو سے بات چیت کے بعد جرمنی کے وزیر خارجہ کے موقف میں بھی واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بدھ کے روز واشنگٹن میں جان بولٹن اور مائک پامپیو سے ملاقات کے بعد کہا کہ یورپ اور امریکہ کے راستے دو بالکل مختلف راستے ہیں اور ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ان کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے۔

بہرحال، ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے نکلنے کے بعد ایران یورپی ممالک کے رویہ کو زیادہ حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اگر یورپی ممالک نے ہمارے مطالبات کے سلسلے میں کوتاہی برتی تو معطل شدہ ایٹمی سرگرمیوں کے آغاز کا ایران کا حق محفوظ ہے۔

 

ٹیگس