موگرینی کا دورۂ فلسطین منسوخ، یورپ اور اسرائیل کے درمیان اختلاف میں شدت
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے، اپنے دورۂ مقبوضہ فلسطین کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے ان سے ملاقات سے انکار کے باعث، اپنا یہ دورہ ملتوی کردیا ہے-
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی، امریکی یہودیوں کی کانفرنس میں شرکت کے لئے مقبوضہ فلسطین جانے کا ارادہ رکھتی تھیں تاہم صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کے دفتر نے موگرینی کے موقف کو دشمنانہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قدس میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کے ساتھ ملاقات ممکن نہیں ہے۔ نتنیاہو نے موگرینی سے ملاقات کرنے سے انکار ایسے میں کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے اسے اپنے دورۂ یورپ میں ایٹمی معاہدے میں جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کے باقی رہنے کے فیصلے پر اثرانداز ہونے میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے یکطرفہ اعلان کے باوجود، کہ جو صیہونی لابی اور صیہونی حکام کےساتھ تبادلۂ خیال کے بعد انجام پایا ہے، یورپی حکام ایٹمی معاہدے پر باقی رہنے پر تاکید کر رہے ہیں- امریکہ کے مقابلے میں یورپ کی خودمختاری کا تحفظ ، اور ایٹمی معاہدے کے سیکورٹی پہلو اور اقتصادی و تجارتی مفادات کی تکمیل وہ جملہ وجوہات ہیں جو اس بات کاباعث بنی ہیں کہ یورپی حکام ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کریں- اسی سلسلے میں یورپی ملکوں کے درمیان تبادلۂ خیال ایک طرف، تو دوسری جانب ایرانی اور یورپی حکام نے بھی مذاکرات انجام دیئے ہیں- یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی اس بارے میں کہتی ہیں کہ ہم ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے میں پرعزم ہیں-
ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کا یورپ کا موقف اس بات کا باعث بنا ہے ہے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے یورپی ملکوں کے اپنے چند روزہ دورے میں یورپی حکام سے بات چیت اور تبادلۂ خیال کے ساتھ ہی یہ کوشش کی ہے کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ان کے موقف کو تبدیل کردیں- لیکن آخرکار بنیامین نتنیاہو کو اس سلسلے میں یورپ سے خالی ہاتھ ہی واپس لوٹنا پڑا- برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے صیہونی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرانس اور جرمنی کے ساتھ ہی برطانیہ کا بھی خیال ہے کہ ایٹمی معاہدہ بہترین معاہدہ ہے کہ جس کی حفاظت ہونی چاہئے-
تل ابیب اور یورپی رہنماؤں کے درمیان اختلافات، صرف ایٹمی معاہدے تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ فلسطینیوں کے حقوق، مقبوضہ زمینوں پر یہودی کالونیوں کی تعمیر جاری رہنا، 1967 کی مقبوضہ سرزمینوں کی مصنوعات کے خلاف یورپی ملکوں کا بائیکاٹ اور امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی، فریقین کے درمیان اختلاف کے دیگر مسائل شمار ہوتے ہیں- امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا قتل عام، کہ جو دسیوں فلسطینیوں کی شہادت پر منتج ہوا ، صیہونی حکومت کے وہ دیگر اقدامات ہیں کہ جس کے خلاف اقوام عالم منجملہ یورپی ملکوں کے عوام اور حکام نے اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ہے- یورپی پارلیمنٹ کے رکن "پیٹریک لو ہائیریک" اس بارے میں کہتے ہیں اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ہمارے درمیان مشترکہ قراردادوں کے متن و روح کی خلاف ورزی کی ہے-
امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی بھی صیہونی حکومت اور یورپ کے درمیان اختلاف کا ایک موضوع ہے- فیڈریکا موگرینی اس بارے میں کہتی ہیں امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی غزہ اور پورے عالم اسلام کے لئے ایک اشتعال انگیز اقدام تھا- برسلز فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فیڈریکا موگرینی نے امریکی صدر کی تجارتی پالیسی اور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں تباہ کن ہیں اور ان سے عالمی سطح پر امریکہ کی سیاسی ساکھ ختم ہو کر رہ جائے گی-
اگرچہ یورپی حکام نے بہت سے موارد میں علاقے میں اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت کی ہے تاہم ایسا سمجھا رہا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے سیاسی دھڑوں کی انتہا پسندانہ پالیسیاں، اب یورپ کی ریڈ لائن پار کر گئی ہیں جو فریقین کے درمیان اختلاف کا سبب بنی ہیں، یہاں تک کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے یورپی یونین کے اعلی ترین سفارتی عہدیدار سے ملاقات کو منسوخ کردیا ہے-