امریکہ کے مقابلے میں یورپی ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل
سات بڑے صنعتی ملکوں کے گروپ جی سیون کے سربراہی اجلاس کے بعد امریکہ اور یورپ کے اختلافات میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جی سیون سربراہی اجلاس کے اعلامیے کی مخالفت کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ کو اب امریکہ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔
جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے بھی یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ امریکی صدر کے حالیہ اقدام کے جواب میں یورپی ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جی سیون اجلاس کے حوالے سے ٹرمپ کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ پیرس معاہدے کے حوالے سے بھی ہم ان کے اس رویے کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے گروپ جی سیون کا اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے کے باعث ناکامی سے دوچار ہوا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون کا، کینیڈا میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کا اختتام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سنجیدہ اور منفی رویے کے باعث خوشگوار نہیں ہوسکا، جس سے گروپ میں شامل امریکا کے اتحادی ممالک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام ایک جانب امریکہ اور یورپ ، اور دوسری جانب امریکہ کے اسٹریٹیجک پارٹنر کینیڈا کے ساتھ تعلقات کے لیے بہت بڑا دھچکہ شمار ہوتا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقدامات کے ذریعے کئی عشروں پر محیط یورپ اور امریکہ کے اقتصادی، تجارتی اور سیکورٹی تعلقات کی جہت کو محض چند برس میں تبدیل کرنا چاہیے ہیں-
کینیڈا، فرانس اور جرمنی کے ساتھ امریکہ کے شدید اختلافات کے سائے میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں شریک امریکی صدر نے امریکہ روانگی سے قبل کینیڈا کے وزیراعظم کے بیان پر شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے اجلاس کے اختتامی بیان کی حمایت واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔
جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ٹوئیٹر کے ذریعے جی سیون سربراہی اجلاس کے بیان سے صدر ٹرمپ کی روگردانی معنی خیز اور کسی حدتک مایوس کن ہے۔اینجلا مرکل کے بقول جی سیون کے حالیہ اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ امریکہ اور یورپ کے درمیان تعاون کا خاتمہ نہیں ہے، تاہم انہوں نے کھل کر کہا ہے یورپ کو اب امریکہ پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے
کینیڈا کے کیوبک سٹی میں جی سیون ملکوں کے اجلاس میں ایران سے ایٹمی ڈیل اور امریکا اور یورپ کے درمیان تجارتی معاملات پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ کینیڈا میں جی سیون گروپ کے اجلاس میں امریکا اور یورپی ملکوں کے درمیان ایران کے جوہری معاہدے اور تجارتی معاملات پر اختلافات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے اور جاپان اور یورپی ممالک ایران سے جوہری معاہدے کو جاری رکھنے پرمتفق ہیں۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے جاری رہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ متنازع بیانات کے لیے شہرت رکھنے والے امریکی صدر نے معاشی جنگ کو پسندیدہ قرار دیتے ہوئے چین سمیت یورپی ممالک سے برآمد کردہ اشیا پر ٹیکس عائد کردیا تھا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس عائد کردیا تھا۔
یورپی رہنما اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کی غرض سے جی سیون اجلاس کے بیان سے امریکی صدر کی روگردانی کو امریکہ کی اس گروپ سے علیحدگی تصور نہ کیا جائے۔ اگرچہ فوری طور پر امریکہ کے جی سیون سے نکلنے کا معاملہ سنجیدہ نہیں ہے لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران صدر ٹرمپ کے رویئے کو دیکھتے ہوئے، جی سیون کے دیگر چھے ممالک کو کوئی تعجب نہیں ہوگا کہ کسی دن امریکی صدر عالمی قوانین کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جی سیون سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کردیں۔ درحقیقت جی سیون کے باقی چھے ملکوں نے خود کو اس دن کے لیے تیار بھی کرلیا ہے اور فرانس کے صدر امانوئیل میکرون نے کھل کر کہا ہے کہ ہم جی 6 کی صورت میں بھی طاقتور گروپ کے طور پر باقی رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اپنے عالمی کردار سے دستبردار ہونا چاہتا ہے تو ہوجائے لیکن یہ امریکی معیشت اور امریکہ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا اور ٹرمپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔