Jun ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۷:۳۶ Asia/Tehran
  • شنگھائی تعاون تنظیم کی، ایٹمی معاہدے کی پابندی کی ضرورت پر تاکید

چین کے شہر چنگ داؤ میں شنگھائی تعاون تنطیم کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں ایٹمی معاہدے کے تمام فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کی خاطر اس معاہدے کی پابندی کریں-

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں نے عالمی و علاقائی امن و استحکام کو ضمانت فراہم کرنے کے دائرے میں تمام فریقوں سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کرنے کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی کو ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے اپنے نکل جانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سیاسی حلقوں کے نقطہ نگاہ سے ٹرمپ کا یہ اقدام کہ جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے کی شکست کا باعث نہیں بننا چاہئے کہ جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام مستقل اراکین نے دستخط کئے ہیں-

اس درمیان چین اور روس کے کاندھوں پر، کہ جو علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے میدان میں مضبوط دعویدار ہیں، ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس معاہدے کی پاسداری اور اس کا تحفظ ان کے لئے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے- بہت سے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدہ وہ واحد بین الاقوامی معاہدہ ہے کہ جس پر نہ صرف یورپی ممالک متحد ہیں بلکہ چین اور روس نے بھی دستخط کئے ہیں اس لئے ایک معتبر بین الاقوامی دستاویز کی حیثیت سے یہ اہمیت کا حامل ہے- یہی وجہ ہے کہ  ایٹمی معاہدے کی شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے مکمل حمایت کے اعلان سے ، اس سلسلے میں بیجنگ اور ماسکو کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ یہ بیان مخدوش ہوجائے اور شنگھائی تعاون تنظیم کی ساکھ کمزور کر دے- 

فرانس کے اسٹریٹیجک ریسرچ فاؤنڈیشن (FRS) کے سنیئر معاون اور محقق " Bruno Tertrais " کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا ٹرمپ کا فیصلہ ایک بہت بڑی غلطی تھی کہ جس نے امریکی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ کثرت پسندی پر حملہ اور یورپی یونین اور معاہدے کے دیگر فریقوں کے لئے نقصان دہ ہے، اس لئے انہیں چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی معاہدے کی ٹھوس حمایت جاری رکھتے ہوئے اپنی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے اثرانداز ہونے میں کمی لائیں۔

سیاسی مبصرین کے نقطہ نگاہ سے امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کا مقابلہ محض بیانیہ پیش کرنے اور تقریریں کرنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون کے اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ کے متنازعہ اقدام نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے ممالک بھی امریکہ کی توسیع پسندیوں اور بے ضابطگیوں کے مقابلے میں استقامت نہیں کریں گے تو وہ ان کی مزید تحقیر کرے گا۔

ہندوستان کے جواہر لعل نہرو انسٹی ٹیوٹ میں چین کے امور کے ماہر سیرکان کاناداپالی کہتے ہیں کہ چین اور ہندوستان جیسے ممالک توانائی سے متعلق مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور ایسے میں امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے سبب ، ایران کے ساتھ ان ملکوں کے تعاون میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اسی لئے یہ ممالک چاہتے ہیں کہ ہر صورت میں اس ایٹمی معاہدے کی حمایت کریں- 

بہرحال ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک جتنا زیادہ اس معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے امریکی دباؤ کا مقابلہ کریں گے اس سے نہ صرف اپنی عالمی پوزیشن کے مستحکم کرنے میں مدد کریں گے بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حقارت آمیز اقدامات جاری رہنے کی راہ میں بھی رکاوٹ بنیں گے کہ جو با آسانی امریکہ کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی دھجیاں اڑانے کا باعث بنا ہے-        

واضح رہے کہ روس، کرقیزستان، قزاقستان، تاجیکستان، ازبکستان، ہندوستان اور پاکستان، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک ہیں۔ شنگھائی تنظیم کا سربراہی اجلاس نو اور دس جون کو چین کے ساحلی شہر چنگ داؤ میں منعقد ہوا جس میں اس تنظیم کے آٹھ مستقل اراکین اور ایران سمیت چار مبصر رکن ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تنظیموں کے  عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔اسلامی جمہوریہ ایران سن دو ہزار پانچ سے شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

ٹیگس