برطانیہ کو ایران کے خلاف صدام کے کیمیاوی حملوں کا اعتراف
برطانیہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے خلاف جنگ میں صدام کی بعثی حکومت کے کیمیاوی حملوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان حملوں کو ایک ٹریجڈی قرار دیا ہے۔
برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ایک ہیش ٹیگ میں کہ جو انھوں نے "کیمیاوی ہتھیارمسترد" کے زیرعنوان لگایا ہے، یاد دہانی کرائی ہے کہ ایران کے خلاف عراق کی جنگ میں ہزاروں ایرانی فوجیوں کو صدام کی بعثی حکومت کے کیمیاوی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے-
برطانیہ کی وزارت خارجہ نے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں ایرانی فوجیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا اعتراف ایسے عالم میں کیا ہے کہ مغربی حکومتیں منجملہ ہالینڈ، برطانیہ ، جرمنی اورامریکہ یعنی صدامی حکومت کے اصلی حامیوں نے حتی کیمیاوی ہتھیار بنانے کے مواد اور ٹیکنالوجی بھی اسے فراہم کئے ہیں-
درحقیت یورپی کمپنیاں خود صدام حکومت کے لئے یہ ہتھیار بنانے والی شمار ہوتی ہیں اور بہت سے یورپی حکام بھی ان اقدامات کی حمایت کر رہے تھے اور صدام کے ہاتھوں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال پر خاموش رہ کر اسے ہری جھنڈی دکھا رہے تھے- اس سلسلے میں ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ اور اس کے بعد کے دوران منظرعام پر آنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا دوسوسات یورپی کمپنیوں منجملہ ہالینڈ، جرمی اور فرانس کی کمپنیوں نے صدام حکومت کو عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار فروخت کئے تھے-
البتہ صدام حکومت نے صرف ایرانی فوجیوں کے خلاف ہی کیمیاوی ہتھیار استعمال نہیں کئے بلکہ بہت سے ایرانی و عراقی عوام منجملہ خواتین اور بچے بھی ایران کے شہر سردشت اورعراق کے حلبچہ جیسے شہروں پر کیمیاوی بمباری کی گئی جس میں بہت سے بےگناہ بچے اور عورتیں شہید ہوگئی تھیں - انیس سو ستاسی میں کردنشین عراقی شہر حلبچہ پر صدام کی فوج کے کیمیاوی حملے میں کم سے کم پانچ ہزار بے گناہ عوام جاں بحق اور سات ہزار زخمی ہوئے تھے-
اگرچہ دسیوں برس کے بعد ایران کے خلاف صدام کے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا برطانیہ کی جانب سے اعتراف بظاہر ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے تاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال اور فروخت کے سلسلے میں مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا دہرا رویہ اب بھی جاری ہے-
برطانیہ کے وزیرخارجہ بوریس جانسن نے اس سلسلے میں کہا کہ دنیا، سن انیس سو ستانوے میں متحد ہوگئی یہاں تک کہ ان کے پھیلاؤ اور ذخیرہ کرنے نیز ان کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو کیمیاوی ہتھیاروں کے کنونشن میں بھی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے روکا گیا ہے لیکن پھر بھی ہم حالیہ برسوں میں شام و عراق میں داعش کے کیمیاوی حملوں کا مشاہدہ کررہے ہیں-
شام حتی یمن میں کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال، مغربی ممالک اوران کے اتحادیوں کے دہرے رویے کے جاری رہنے کا ثبوت ہے- یہ ممالک ایک طرف انسانی حقوق کی حمایت کے نعرے لگاتے ہیں اور کیمیاوی حملوں اور ان کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری جانب انجام پانے والے جرائم اور اس قسم کے ہتھیارفروخت کرنے والی کمپنیوں کے سامنے خاموشی اختیار کر کے اپنے مذموم مقاصد پر عمل پیرا ہیں- چنانچہ بین الاقوامی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ مہینوں کے دوران سیکڑوں یمنی شہری خاص طور سے خواتین اور بچے ان فاسفرس بموں یا یورے نیم کے گولوں جیسے ممنوعہ ہتھیاروں کی بھینٹ چڑھے ہیں کہ جو برطانیہ ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک سعودی عرب کو دے رہے ہیں تاکہ یمن کے مظلوم عوام کو نشانہ بنایا جائے-
کیمیاوی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے کے سربراہ احمد اوزومچو نے کیمیاوی ہتھیاروں کا نشانہ بننے والوں کی تکلیف و اذیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا مقابلہ کرنا سب کی ذمہ داری ہے-
ان حالات مین ایسا نظر آتا ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں پرممالک کی پابندی اور چندجانبہ پالیسیوں سے اجتناب اس سلسلے میں نئے حادثات کو روکنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے-