آل خلیفہ کے ہاتھوں پانچ ہزار سے زیادہ بحرینیوں پر تشدد
بحرین کی سب سے بڑی پارٹی جمعیت الوفاق نے اعلان کیا ہے کہ اس ملک کی ڈکٹیٹر آل خلیفہ حکومت نے سن دوہزار گیارہ سے اب تک پانچ ہزار اٹھانوے بحرینیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے-
دنیائے عرب میں دوہزارگیارہ سے آمرحکومتوں اور بادشاہتوں کے خلاف عوامی تحریکوں کا آغاز ہوا ہے - خلیج فارس کے علاقے میں بحرین اور سعودی عرب دو ایسے ملک ہیں کہ جہاں عوامی تحریکیں جاری ہیں تاہم بحرین میں جہاں اکثریتی شیعہ آبادی پر اقلیتی ڈکٹیٹرطبقہ یعنی آل خلیفہ حکومت کررہی ہے عوامی انقلابی تحریک اپنے عروج پر ہے اور آمر حکومت، اکثریتی طبقے کو کچلنے اور ان کی آواز دبانے کے لئے ہرطرح کے ہتھکنڈے اپنانے کے باوجود اپنے مذموم عزائم کے حصول میں ناکام ہے اور تحریک انقلاب گذشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے-
آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر حکومت نہ صرف اس ملک کی اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مخالفین سے، ہرقسم کے مذاکرات کا دروازہ بند کئے ہوئے ہے بلکہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے- بحرینی مظاہرین کے خلاف ہرطرح کے تشدد اور جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے تاہم اس میں سب سے وحشتنات تشدد ، ٹارچر کیا جانا ہے- انسداد تشدد کے کنونشن کی پہلی ہی شق میں تشدد کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ: تشدد ، کسی شخص کوحکومت کے اہلکاروں یا عہدیداروں کی جانب سے جان بوجھ کر کسی بھی طرح کی شدید جسمانی یا روحانی تکلیف و اذیت پہنچانے ، ڈرانے دھمکانے ، مجبور کرنے یا کسی طرح کے امتیازی سلوک کا نام ہے- چاہے وہ حکومت کے اکسانے یا اس کی اجازت سے انجام پائے یا اس کے سکوت کی وجہ سے ہو ، اس کا مقصد اطلاعات حاصل کرنا ہو، کسی بات کا اعتراف لینا ہو یا اس عمل کی بابت ہو جو اس نے انجام دیا ہے یا انجام نہیں دیا ہے--
بحرین پر مسلط ڈکٹیٹر آل خلیفہ حکومت فعال سیاسی شخصیتوں حتی عام شہریوں کو کہ جو بحرین میں ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، انسداد تشدد کے کنونشن کے مطابق تشدد کا نشانہ بناتی ہے-
ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ جواد فیروز کا کہنا ہے کہ انقلاب بحرین کے آغاز یعنی فروری دوہزارگیارہ سے ستمبر دوہزار سترہ تک تقریبا پندرہ ہزار افراد کو جیلوں میں ڈالا چکا ہے- اس میں تقریبا چار ہزار افراد اس وقت بھی جیلوں میں ہیں اور تمام افراد جو کبھی بھی جیل گئے تھے یا اس وقت جیلوں میں ہیں سب ہی کو آل خلیفہ کے سیکورٹی اہلکار بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں- ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹ کے مطابق، وہ قیدی جنھیں یکہ و تنہا کال کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے انھیں الیکٹریک شاک ، جسمانی تشدد، دھمکی ، توہین و تحقیر، سر ، سینے ، ہاتھ پیراور ہتھیلیوں وغیرہ پر بدترین تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے ، اس طرح کے قیدیوں کو نیند اور حمام وغیرہ سے محروم رکھا جاتا ہے اور تشدد کی یہ تمام قسمیں آل خلیفہ کی جیلوں میں قیدیوں پر روا رکھی جاتی ہیں- بعض خواتین اور مرد قیدیوں کو جنسی جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے- بعض قیدیوں کو اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ جیل میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بحرین کی تحریک انقلاب میں شامل بہت سے قیدی اب تک اس طرح کے تشدد کے نتیجے میں شہید ہوچکے ہیں- عبدالھادی الخواجہ جیسے بعض قیدیوں کو جب آل خلیفہ کی کٹھ پتلی عدالت میں پیش کیا گیا تو ان پر تشدد کے آثار پوری طرح نمایاں تھے- قیدیوں کو طبی خدمات سے محروم رکھنا بھی ایک طرح کا جسمانی تشدد ہے - بحرین کے بزرگ عالم دین آیت اللہ عیسی قاسم کو کہ جو خانہ قید ہیں ، اسپتال جانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور اس کی وجہ سے ان کی جسمانی حالت نہایت تشویشناک ہے-
آل خلیفہ ایسے عالم میں قیدیوں کو کہ جن میں اکثر عام شہری ہیں ، تشدد و مظالم کا نشانہ بناتی ہے کہ متعدد بین الاقوامی دستاویزات اور کنونشنوں میں تشدد سے سختی سے منع کیا گیا ہے- انسداد تشدد کنونشن کی دوسری شق میں آیا ہے کہ جنگ یا جنگ کا خطرہ ، ملک میں سیاسی بیچینی یا کسی بھی طرح کی ہنگامی حالت جیسے غیرمعمولی حالات کو تشدد کا جواز نہیں بنایا جا سکتا-