ایٹمی معاہدے میں باقی رہنا فریق ملکوں کے وعدوں پر منحصر ہے: حسن روحانی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے دورہ آسٹریا کے موقع پر، ویانا میں جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو کے ساتھ ملاقات میں کہا ہےکہ اگر ایرانی عوام کو جوہری معاہدے کے ثمرات نہ ملے تو اس معاہدے میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
صدر مملکت نے بدھ کی شام کو ویانا میں بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو سے ملاقات میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عالمی جوہری ادارے کا یہ فرض ہے کہ وہ پُرامن جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق اقوام کے حقوق کا دفاع کرے کہا کہ ایٹمی معاہدہ، سفارتکاری اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کے لئے ایک کامیابی ہے اور اس کامیابی کا جاری رہنا صرف ایٹمی معاہدےکے تمام فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے میں ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے جوہری معاہدہ عدم توازن کا شکار ہوا ہے لہذا اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے دیگر فریقین کو چاہئے کہ اپنے وعدوں پر من و عن عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں پُرامن تھیں اور ہیں تاہم عالمی جوہری ادارے کے ساتھ تعاون سے متعلق تہران کو ہی فیصلہ کرنا ہے لہذا ایران اور عالمی ادارے کے درمیان تعاون میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔
اس موقع پر یوکیا امانو نے جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں ںے مزید کہا کہ ایران کا جوہری معاہدہ ایک تکنیکی اور سفارتی فتح ہے۔ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ عالمی ادارے نے بارہا کہا ہے کہ ایران اپنے وعدوں پر مکمل طور پر عمل کر رہا ہے۔
اسی کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی، ویانا میں ایران اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کے وزرائے خارجہ کی سطح پر مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے موقع پر اپنے ٹوئٹ میں جوہری معاہدے کو بچانے سے متعلق دوسرے فریقوں کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جوہری معاہدے کو بچانے کا عزم واضح ہوگیا ہے تاہم اس عزم پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ویانا میں امریکہ کے بغیر، ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں کے مشترکہ کمیشن کا درپیش اجلاس یورپی ملکوں کے لئے حیاتی اور انتہائی اہم ہے تاکہ اس اجلاس میں ثابت کریں کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ان کی باتیں کس حد تک حقیقت اور عمل سے نزدیک ہیں- آٹھ مئی 2018 کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد سے، یورپی فریقوں نے ہمیشہ اس معاہدے کا دفاع کیا ہے اور سفارتی بیان میں اپنے عزم کا اظہار بھی کیا ہے لیکن وہ چیز جو ایران کے لئے اہم ہے ، یورپی ملکوں کے عملی اقدامات ہیں اور یورپی ملکوں کو ایران نے جو موقع اور وقت دیا تھا، اب وہ اپنے اختتام کو پہنچ رہاہے۔ خبروں میں کہا گیا ہے کہ یورپی فریق جمعے کو، ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کے تعلق سے اپنا مجوزہ پیکج ایران کو پیش کریں گے- یہ پیکج اس فریم ورک کے دائرے میں ہونا چاہئے کہ جس کا تعین رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر بائیس اکتیس کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یورپی ممالک کو چاہئے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے خلاف قرارداد پیش کریں اور اس امریکی اقدام پر احتجاج کریں۔ آپ نے تین یورپی ممالک پر زور دیا کہ انہیں چاہئے کہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے سے متعلق ایران کو اعتماد میں لیں اور اس حوالے سے ہمیں ضمانت دیں کہ ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں ایران کی موجودگی پر بات نہیں ہو گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یورپی ممالک کی جانب سے جوہری معاہدے کو جاری رکھنے کے لئے ضمانت فراہم کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکی حکام تیل کی فروخت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تو یورپی ممالک کو چاہئے کہ وہ تیل خریدنے کی ضمانت فراہم کریں۔ اس کے علاوہ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ یورپی ملکوں کے بینکاری کے شعبے میں تعاون پر بھی کھل کر بات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کا تین یورپی ممالک سے کوئی جھگڑا نہیں ہے البتہ یورپی ممالک کے ماضی پر نظر ڈالنے سے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اسی لئے انھیں ضمانت فراہم کرنی چاہئے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ اگر یورپی ممالک نے ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا اور اس پر عمل کرنے میں تاخیر کی تو ایران بھی اپنی معطل شدہ پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کر دے گا۔
اگرچہ ابھی تک ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے یورپ کے اقدامات ناکافی رہے ہیں لیکن ویانا میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا جمعے کو ہونے والا اجلاس، کسی حد تک صورتحال کو واضح کردے گا اور اگر صورتحال ایران کے لئے قابل قبول نہیں ہوئی، تو اسے تبدیل کرنا ایران کے سامنے ایک آپشن کے طور پر موجود ہے- امریکہ کا اسٹریٹیجک مقصد ، ایٹمی معاہدے سے ایران کا نکل جانا ہے، لیکن ایران کی اصولی و منطقی پالیسی کے سبب، اس وقت گیند یورپیوں کی زمین میں ہے تاکہ وہ اپنی خود مختاری کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ کس حد تک عالمی سفارتکاری کے کارنامے کا تحفظ کرسکتے ہیں-