ایران کے سلسلے میں واشنگٹن سے متضاد آوازیں
ایران کے ساتھ بلاقید و شرط مذاکرات پر آمادگی سے متعلق امریکی صدر کے بیانات کو ابھی دو گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ اس ملک کے وزیرخارجہ پمپئو نے اپنے صدر کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے ایران سے مذاکرات کے لئے شرطیں عائد کر دیں
امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے وائٹ ہاؤس میں اٹلی کے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ، ایران کے اعلی حکام کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے لئے، ایرانی عوام کے ساتھ ایرانی حکومت کے رویے میں تبدیلی ، علاقائی پالیسیوں میں تبدیلی، اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے اجتناب پراتفاق کے اظہار جیسی تین شرطوں کا اعلان کیا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ نے دسیوں صحافیوں کے سامنے ایک سوال کے جواب میں کھل کر کہا کہ : میں ان سے ملاقات کے لئے تیار ہوں ، وہ جب بھی چاہیں- مجھے نہیں پتہ کہ وہ تیار ہوں گے- کوئی پیشگی شرط نہیں ہے ، وہ جب بھی چاہیں ، ان کے لئے بھی اچھا ہے اور دنیا کے لئے بھی -
سب سے پہلا نکتہ کہ جو امریکی صدراور وزیرخارجہ کے بیانات سے نکالا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ واشنگٹن میں ایران سے مذاکرات کے سلسلے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا- ایسا نظر آتا ہے کہ ٹرمپ صرف ٹیلی ویژن پر نمائش کے لئے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ انھوں نے شمالی کوریا کے ساتھ کیا- ایسی حالت میں جب امریکی سفارتکاری کہ جو پمپئو کے آنے کے بعد ہمیشہ سے زیادہ انتہاپسند اور شدت پسند گروہوں کے قابو میں ہے، کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے منجملہ ایران کے داخلی امور میں مداخلت اور ملت ایران اور آخرکار ایران کے سیاسی نظام کو بھکراؤ کی دہلیز تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے-
اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ ہرطرح کی گفتگو اور مذاکرات کے لئے کم سے کم باہمی احترام ، دھونس و دھمکی سے پرہیز اور باہمی اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے- جبکہ مجموعی طور پر امریکہ کی مختلف حکومتیں گذشتہ چالیس برسوں کے دوران خاص طور سے ڈونالڈٹرمپ کی زیرقیادت موجودہ حکومت اس اصول کی پابند نہیں رہی ہے- امریکی حکومت نے ہمیشہ ہی بلاثبوت و دلیل ایران کو دہشتگردی کا حامی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دیاہے حتی ٹرمپ نے تو ایک بار ملت ایران کو دہشتگرد پیدا کرنے والی قوم تک کہہ ڈالا ہے- اسی طرح امریکی صدر نے ایسی حالت میں ایران کے ساتھ بلاشرط مذاکرات کی بات کی ہے کہ کچھ دنوں میں زیادہ سے زیادہ آئندہ تین مہینوں میں ایران کے خلاف امریکہ کی غیرقانونی و یکطرفہ پابندیاں پھر سے شروع ہوجائیں گی- امریکی حکومت کو توقع ہے کہ وہ اسلحے کے زور پر ملت ایران کو ڈرا دھمکا کر مذاکرات کے لئے مجبور کردیں گے جبکہ بعض امریکی سیاستدانوں تک نے اس دھمکی آمیز پالیسی کے ناکام ہونے کا اعتراف کیا ہے-
امریکہ کی سابق نائب وزیرخارجہ اور ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ ونڈی شرمین کا کہنا ہے کہ ایرانیوں کے پاس استقامت کی ثقافت ہے اور وہ دباؤ کے مقابلے میں اپنے حقوق سے پیچھے ہٹنے کو تسلیم ہونے سے تعبیر کرتے ہیں-
اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ ایران کا ممکنہ سمجھوتہ امریکہ کے آئندہ صدر کی جانب سے پامال نہیں کیا جائے گا جس طرح ٹرمپ نے ایران کے ساتھ باراک اوباما کی زیرقیادت امریکی حکومت کے سمجھوتے کو پامال کردیا ہے-
اس بنا پر امریکی جب تک ملت ایران کے احترام کو مدنظر نہیں رکھیں گے ، دھونس و دھمکی سے دست بردار نہیں ہوں گے اور اپنی حکومت کے فیصلوں پراعتماد بحال کرنے کے لئے اقدامات نہیں کریں گے اس وقت تک ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے ان کی نمائشی درخواستوں کو تہران میں کوئی سننے والا نہیں ہے-