Aug ۰۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۵ Asia/Tehran
  • بنگلادیش میں طلبا کی ملک گیر ہڑتال جاری

بنگلادیش میں تیز رفتاربس کی زد میں آکر 2طلبا کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا طلبا کا ملک گیر احتجاج آٹھویں دن میں داخل ہوگیاہے۔ پرتشدد مظاہروں میں 317 بسیں نذرآتش کردی گئیں جبکہ 51 افراد زخمی ہوگئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطا بق طلبا کی جانب سے ڈھاکا سمیت ملک کے دیگر شہروں میں پہیہ جام ہڑتال جا ری ہے جبکہ حکام نے طلبا سے احتجاج ختم کرنے کی درخواست کی ہے، دارالحکومت ڈھاکہ کی روزمرہ کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے- کچھ حصوں میں پولیس کے ساتھ تصادم ہواہے ۔ پھر بھی مظاہرین نے حکم امتناع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر مظاہرہ کیا اور ٹریفک جام کردیا۔ 8 روز سے جاری پرتشدد مظاہروں میں 317 بسیں نذرآتش کردی گئیں جبکہ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیاں لگنے سے بعض رپورٹوں کے مطابق اب تک 115 نوجوان زخمی ہوچکے ہیں، حکومت نے انتخابات سے قبل ملک میں پھیلنے والے انتشار کو ہر صورت جلد از جلد قابو کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ بنگلادیشی وزیر داخلہ اسد الزمان خان کا کہناہے کہ ہم نابالغوں کو اکسانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے-

دوسری جانب سے بنگلادیش کی اپوزیشن جماعت کے جنرل سیکرٹری نے حکومت کی جانب سے عائد کیے جانے والے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ملکی بحران اور سڑکوں پر ہونے والے ہولناک حادثات کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔ جنرل سیکرٹری مرزا فخر الاسلام کا کہنا ہے کہ جو حکومت طلبہ کے مسائل اور ٹریفک حادثات پر کنٹرول نہ حاصل کرسکے اسے فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے ۔ 

حکمراں جماعت کو یہ تشویش ہے کہ یہ احتجاج مخالف جماعتوں کی تحریک میں تبدیل نہ ہوجائے- عوامی لیگ کی قائد شیخ حسینہ واجد 2009 سے بنگلادیش کے اقتدار میں ہیں- حسینہ واجد نے فوج کے تعاون سے حکومت مخالف جماعتوں کے خلاف مقدمے دائر کرکے، اپنے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کی راہ مسدود کردی ہے- اس کے باوجود بنگلادیش کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے ساتھ ہی ملک میں بے روزگاری میں اضافہ اور سرکاری اداروں میں نوکریاں دیئے جانے میں تفریق اور امتیازی سلوک، اس بات کا باعث بنا ہے کہ دونوجوانوں کی بس حادثے میں ہلاکت کے ساتھ ہی طلبا کا احتجاج، ایک ہمہ گیر احتجاج میں تبدیل ہوگیا ہے- اس امر کے پیش نظر کہ 2019 کے اوائل میں بنگلادیش کے پارلیمانی انتخابات ہونا طے پائے ہیں ، طلبا کے احتجاج میں شدت نے اس ملک کی وزیر اعظم کو تشویش میں ڈال دیا ہے- بنگلادیش میں جاری طلبا کے احتجاج سے، کہ جس کے بارے میں ابھی تک ڈھاکہ کی حکومت نے کسی پارٹی یا کسی گروہ پر احتجاجی طلبا کی حمایت کا الزام عائد نہیں کیا ہے،  یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ احتجاج خود طلبا کر رہے ہیں اور کوئی پارٹی یا گروہ اس میں ملوث نہیں ہے یا پھر کوئی خفیہ ہاتھ ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ان احتجاجات کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے اسی سبب سے حکومت بنگلادیش نے چوبیس گھنٹوں کے لئے موبائل اور انٹرنیٹ سروس منقطع کردی ہے- 

بنگلادیش سے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت اخبار پروٹوم آلو نے اس سلسلے میں اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ ڈھاکہ حکومت نے طلبا کے احتجاج کو روکنے کے لئے سنیچر کی شام سے چوبیس گھنٹے کے لئے موبائل اور انٹرنیٹ سروس منقطع کردی ہے۔ حکومت کو ان احتجاجات میں سوشل میڈیا کی مداخلت کا خدشہ ہے-

اب یہ سوال کہ کیا بنگلادیش کی حکومت طلبا کے احتجاج رکوا سکے گی تو اس کا تعلق حکومت کی کارکردگی اور طلبا کی توقعات اور مطالبات کا اطمئنان بخش جواب ملنے پر ہے- اس سے قبل اپوزیشن جماعتیں عوامی مطالبات کو پارلیمنٹ میں پیش کرتی تھیں اور اس کا جائزہ لیتی تھیں لیکن گذشتہ برسوں کے دوران کہ جب اپوزیشن جماعتوں اور دھڑوں کی کوئی آواز سنی نہیں جارہی ہے، سماجی چینلوں نے ان کی جگہ لے لی ہے اور ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا طلبا کو احتجاج پر اکسانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ جو ممکن ہے آئندہ کے انتخابات میں شیخ حسینہ کے لئے تشویش کا باعث بن جائے- 

بنگلادیش کے سیاسی ماہر عطاالرحمن کہتے ہیں

بنگلادیش کی حکومت کو عام انتخابات کے نتائج سے تشویش لاحق ہے کہ جو آئندہ سال ہونے والے ہیں- حکومت بنگلادیش اپنے مخالفین کو گرفتار کرکے، مخالف جماعتوں کی سرگرمیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ سوشل نیٹ ورک کو ممکنہ خطرہ سمجھا جا رہا ہے- 

بہرصورت اس امر کے پیش نظر کہ بنگلادیش میں ہمیشہ سے نیشنلسٹ پارٹی اور اسلامی جماعتوں کی حکومت رہی ہے ایسے میں سیاسی مذاکرات کا آغاز اور بدعنوانی اور سرکاری اداروں میں نوکریاں دیئے جانے میں امتیازی رویہ، طلبا میں قومی آشتی کا ماحول پیدا کرنے کے ساتھ ہی بنگلادیش کے مستبقل کے لئے امید افزا واقع ہوسکتا ہے-     

 

 

 

   

ٹیگس