ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا اعادہ، ایک شکست خوردہ سناریو
اسلامی جمہوریہ ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی نے کہا ہے کہ ایران کی حکومت پوری قوت و اقتدار کے ساتھ پابندیوں کا مقابلہ کرے گی-
عبدالناصر ہمتی نے گذشتہ رات ایران کے ٹی وی چینل دو پر خصوصی گفتگو میں، ایران کے خلاف دوبارہ امریکہ کی جانب سے غیرقانونی پابندیاں عائد کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز سے ایران میں نئے کرنسی پیکج پر عملدرآمد شروع ہوجائےگا- انہوں نے کہا کہ ایران کے اقتصادی حالات اور کرنسی کی پوزیشن بہت بہتر ہے اور بنیادی اشیاء کی فراہمی میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپیو» Mike Pompeo نے کہا ہے کہ امریکہ پیر 6 اگست سے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان ایسے میں کیا ہے کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے چند روز قبل ایران کے ساتھ غیر مشروط طور پر مذاکرات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکہ نے آج چھ اگست کو ایک بار پھر ایران کے خلاف بعض پابندیاں عائد کردی ہیں ایسی پابندیاں کہ جو اس سے قبل بھی لگائی جا چکی ہیں تاہم ان پابندیوں کے نتیجے میں ملکی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں- ایسے حالات میں ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کی جار ہی ہیں کہ امریکہ کو ماضی کے برخلاف عالمی سطح پر ٹھوس مخالفتوں کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایران نے امریکی پابندیوں کے ممکنہ اثرات سے مقابلے کے لئے ضروری اقدامات انجام دے دیئے ہیں-
ایرانی قوم جانتی ہے کہ امریکہ کا غیر متوازن ردعمل اور عالمی معاشرے کے مطالبے کی مخالفت ، درحقیقت ایران کے خلاف امریکہ کی ذاتی دشمنی اور حتی ٹرمپ سے پہلے والی امریکی حکومتوں کی بھی خارجہ پالیسی کی آئینہ دار ہے-
بین الاقوامی مسائل کے ماہر اور تجزیہ نگار ڈن گلیزبروک (Dan Glazebrook) کہتے ہیں کہ ایران کو تباہ کرنے لئے اس جنون کی وجہ واضح ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایران ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے خود بخود علاقے پر سامراجی اقدامات کو کنٹرول کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اور یہ مسئلہ امریکہ کی فوجی طاقت کے کمزور ہونے اور عالمی سطح پر ڈالر کی پوزیشن کے بھی کمزور ہونے کا باعث بنا ہے-
ایران کی آج کی معیشت کی، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ رہی ہے کہ ان طاقتوں کے پیدا کردہ بحرانوں سے نمٹنے کے لئے، تھوڑی توجہ کے ساتھ اصلاح ہوجائے گی اور ٹرمپ کی پابندیوں کے بھی اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے- ایران نے امریکی پابندیوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرلئے ہیں- اور تجارتی لین دین میں ڈالر کو حذف کرکے چین اور روس جیسے بڑے ملکوں کے ساتھ دوطرفہ تجارت انجام دے رہا ہے-
وائٹ ہاؤس کی توقعات کے برخلاف امریکی ہتھکنڈہ، متعدد وجوہات کے سبب افادیت نہیں رکھتا اور عالمی قوانین کے بھی برخلاف ہے- ایران کی علاقائی اور بین الاقوامی پوزیشن اس وقت امریکہ کے لئے ایک چیلنج شمار ہوتی ہے۔ ایران ، سلک روڈ اکنامک بیلٹ جیسے عظیم منصوبوں کی ترقی و توسیع میں بنیادی اور حیاتی کردار کا حامل ہے اور چین کے ساتھ اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
ایران آبنائے ہرمز اور باب المندب جیسے اسٹریٹجک آبی علاقوں پر بھی پوری دسترس رکھتا ہے - آبنائے ہرمز تیل کی برآمد کے لئے ہی اہم نہیں بلکہ تیل کے علاوہ بھی 2.9 ارب ٹن سامان اسی آبی راستے سے گزرتا ہے اور دبئی بندرگاہ سے آزاد آبی راستے تک پہنچنے کا واحد راستہ آبنائے ہرمز ہے۔ خلیج فارس کے کئی ملک، بڑی بڑی بندرگاہیں بنا رہے ہیں جو آبنائے ہرمز کے بند ہونے کے ساتھ ہی بند ہو جائیں گی-
حالیہ دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے تیل کی برآمد کو صفر تک پہنچانے کی دھمکی کے بعد ایران کے صدر نے علامتی طور دھمکی دی تھی کہ اگر ایران کا تیل برآمد نہیں ہو گا تو کسی کا تیل بھی برآمد نہیں ہوگا۔ یہ بیان آبنائے ہرمز کو براہ راست بند کرنے کی دھمکی سمجھا جا رہا تھا۔ ایران نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ خطرہ ہونے کی صورت پر آبنائے ہرمز بند کر دے گا اور یہ کام اس کے لئے ایک گلاس پانی پینے جیسا آسان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے یکطرفہ اقدامات اور منھ زوری کا دور اب ختم ہوچکا ہے- اس وقت ملکوں کے درمیان تعلقات دوطرفہ تعاون ، باہمی احترام اور بین الاقوامی تعلقات پر حکمراں اصولوں کی بنیاد پر اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی حکومت اس حقیقت کو درک کرنے پر مجبور ہے کہ عالمی معاشرے کو نابود کرنے کی اس کی کوششیں اور بیک وقت دوسروں کے مفادات پر ڈاکہ ڈالنے کی پالیسی، شکست خوردہ ہوچکی ہے اور امریکہ اپنے ان اقدامات کے سبب مزید گوشہ نشیں ہوجائے گا- ٹرمپ آٹھ مئی کو ایٹمی معاہدے سے نکل گئے اور انہوں نے دنیا کو ایران کے خلاف ورغلانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں لیکن امریکہ اب عالمی رائے عامہ کی نظر میں بے اعتبار اور بے اعتماد ہوچکا ہے- اور یہ نکتہ بھی سب پر واضح ہوگیا ہے کہ چاہے ایٹمی معاہدہ امریکہ کے بغیر باقی رہے یا نہ رہے، لیکن امریکہ کو اس سے جو کاری ضرب لگے گی وہ ایٹمی معاہدے کو پہنچنے والی ضرب سے زیادہ سنگین ہوگی-