امریکہ، کو عالمی قوانین و معاہدوں کی پرواہ نہیں
مہینوں کی دھمکی کے بعد آخرکار امریکی حکومت نے ایران کے خلاف معلق ایٹمی پابندیاں دوبارہ عائد کردیں۔
امریکہ نے سات اگست کی صبح سے ایران کے خلاف بعض پابندیاں کہ جو دوہزار پندرہ میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے پرعمل درآمد کے بعد معلق ہوگئیں تھیں دوبارہ عائد کردی ہیں- ایران کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں میں ڈالر اور سونے میں لین دین، اسٹیل کی تجارت ، مسافربردار طیاروں اوراس سے متعلق کل پرزوں کی خرید و فروخت پرپابندیاں شامل ہیں- پروگرام کے مطابق نومبر کے مہینے سے ایران کے خلاف تیل کی فروخت اور بینکنگ سے متعلق پابندیاں بھی نافذ کردی جائیں گی-
سات اگست سے امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاں صرف سات ملکوں کے درمیان ایک طویل مذاکرات کے بعد ہونے والے سمھجوتے کو پامال کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس اقدام سے امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد تیئیس اکتیس کی بھی خلاف ورزی کی ہے- اس قرارداد میں کہ جو جون دوہزارپندرہ میں منظور ہوئی تھی ایٹمی سمجھوتے کے متن کو قرارداد کے ایک حصے کے طور پر مدنظر رکھا گیا اور اس متن میں امریکی حکومت نے واضح لفظوں میں کھل کرعہد کیا ہے کہ جب تک ایران ، ایٹمی سمجھوتے کا پابند رہے گا اس کے خلاف ایٹمی پابندیاں معلق رہیں گی-
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اب تک ایٹمی سمجھوتے کی مکمل پابندی کی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کی بارہ رپورٹوں میں تصدیق کی گئی ہے-
امریکی تجزیہ نگار جنیفر رابین نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ جیسا کہ ہم نے پیشگوئی کی تھی کہ ٹرمپ کا یکطرفہ اور غیرعاقلانہ اقدام اس بات کا باعث بنا کہ امریکہ نے ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل کر خود کو تنہا کرلیا جبکہ ایران یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اس نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے معاہدوں پرعمل کیا ہے-
ٹرمپ کے ایران دشمن اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خلاف فیصلے پر عالمی ردعمل پوری طرح منفی رہا ہے-ٹرمپ کی جانب سے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے فرمان پر دستخط کے چند ہی منٹ بعد اور اس پرعمل درآمد سے کچھ گھنٹے پہلے تین یورپی ملکوں برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے یورپی یونین کے نمائندے کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان جاری کر کے امریکی اقدام پر سخت تنقید کی- اسی طرح منگل سے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی یورپی کمپنیوں کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کو روکنے سے متعلق یورپی یونین کے قوانین پرعمل درآمد شروع کردیا گیا ہے- البتہ امریکہ کے جارحانہ رویے اورعالمی مالیاتی نظام سے اس ملک کی جانب سے غلط استعمال کئے جانے کی بنا پر یہ توقع پائی جاتی ہے کہ بعض پرائیویٹ کمپنیاں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی پیروی کریں گی- جبکہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد ہونے سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ واشنگٹن کے سیاسی و اقتصادی تعلقات پر نہ صرف یہ کہ برا اثر پڑے گا بلکہ ملت ایران کے تاریخی حافظہ میں بھی ہمیشہ محفوظ رہے گا جس طرح کہ اب بھی انیس سو ترپن میں ایران کی قانونی حکومت کے خلاف امریکی بغاوت اور مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں صدام کے ساتھ واشنگٹن کا ہمہ گیرتعاون ملت ایران نہیں بھولی ہے-