تہران سہ فریقی اجلاس ، ادلب سے دہشتگردی کے خاتمے کا عزم
شام کے حالات کے تناظر میں تہران میں ایران ، روس اور ترکی کا سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا- اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے شام اور ادلب میں دہشتگردوں کے خلاف جنگ کے بارے میں اہم نکات پر روشنی ڈالی -
صدر حسن روحانی نے جمعے کو تہران میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ شام کے بحران کا فوجی راہ حل نہیں ہے کہا کہ ادلب میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی شام میں امن و استحکام کی بحالی کے لئے ناقابل اجتناب ہے لیکن کارروائی میں عام شہریوں کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے- ایران کے صدر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دہشتگردی کے وجود میں آنے کی وجوہات پر توجہ نہ دی جائے اور غاصبانہ قبضے ، دہشتگردی ، جارحیت اور بیرونی مداخلت کے بانی و موجب امریکہ و صیہونی حکومت اور دہشتگردی کے حامی بعض دیگر الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی سے ملزم کے بجائے مدعی نہیں بن سکتے-
شام کے بارے میں تہران اجلاس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے خطاب کے نکات سے دہشتگردی کے خلاف حقیقی جنگ کے محور کی حقانیت کا پتہ چلتا ہے کہ جس کی بنا پراس محور کے سربراہان تہران میں جمع ہوئے- اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہی روس اور ترکی کہ جن کی پہل پر آستانہ مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوا تھا شام میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سیاسی عمل میں موثر کردار ادا کر رہے ہیں اور اس وقت اس ملک میں جنگ کی صورت حال سے اس علاقائی عمل کی کامیابی کا پتہ چلتا ہے- آستانہ عمل میں شامل ممالک کہ جو امریکہ کی مرضی کے برخلاف کردار ادا کر رہے ہیں ، دہشتگردی کے خلاف جنگ کے حقیقی دعوے دار ہیں اور دہشتگردوں کے ادلب تک محدود رہ جانے سے ان ممالک کی حقانیت کا پتہ چلتا ہے-
ان حالات میں دہشتگردی کے حامی منجملہ امریکہ اور اسرائیل ہنگامہ آرائی اور پروپیگنڈوں کے ذریعے شام میں دہشتگردوں کی موجودگی جاری رکھنا چاہتے ہیں-
صیہونی حکومت اور امریکہ نے دیگر تخریبی کرداروں کے ساتھ مل کر حالیہ دنوں میں شام کے حالات میں شام کے عوام کی حمایت کے دعوے کے ساتھ نفسیاتی جنگ شروع کررکھی ہے تاکہ ادلب کو آزاد کرانے کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالیں- اس درمیان صیہونی جنگی طیاروں نے گذشتہ منگل کو شام کے صوبہ حماہ پر کئی بار بمباری کی اور اس کے ساتھ ہی وائٹ ہیلمٹ کے نام سے موسوم گروپ ، امریکہ اور برطانیہ کے انٹیلجنس اداروں کی مدد سے کیمیاوی حملے کا ڈرامہ رچنے کے لئے ادلب کے اطراف میں منصوبہ بند کیمیاوی حملے کرنے کی مشقیں کررہا ہے تاکہ ادلب کی کارروائی شروع ہوتے ہی شامی فوج پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگا سکے- اس طرح کے ڈرامے اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں اور امریکہ برطانیہ اور فرانس، گذشتہ اپریل میں غوطہ شرقی کے علاقے دوما میں شامی فوج پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگا کر شام پر مشترکہ میزائیلی حملہ بھی کرچکے ہیں- یہ حملہ اور اس کے مدنظراہداف سے ثابت ہوچکا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں طریقہ کار کا حصہ نہیں بلکہ بحران کا حصہ ہیں اور دہشتگردوں کے پالے میں کھیل رہے ہیں- اس سلسلے میں امریکی نظریہ پرداز اسٹیفن لنڈمین نے گلوبل ریسرچ ویب سائٹ پر لکھا کہ جنھیں باغی یا شامی حکومت مخالف گروہ کہا جاتا ہے وہ وہی ایجنٹ ہیں جنھیں امریکی جاسوسی کے ادارے سی آئی اے اور اسرائیلی جاسوسی کے ادارے موساد نے کرایے پر لے رکھا ہے تاکہ وہ واشنگٹن ، نیٹو ، اسرائیل اور علاقے کی بعض حکومتوں کے ناجائز اہداف کے لئے کام کریں کہ جو شام کی خودمختاری اور اقتداراعلی کے دشمن ہیں -
اس حقیقت کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے جمعے کی شام تہران کے سہ فریقی اجلاس میں کہا کہ شام میں امریکہ کی مداخلتیں کسی بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق نہیں اور غیر قانونی ہیں اور اس ملک کے مسائل و مشکلات کو بڑھا رہی ہیں اور وہ شام میں پائدار امن کے حصول کی راہ میں سنگین مشکلات کھڑی کر رہی ہیں- اس تناظر میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران ، روس اور ترکی کے سربراہوں کے اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں شام کی خودمختاری ، اقتداراعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ پر تاکید کی گئی اور کہا گیا کہ بحران شام کا فوجی راہ حل نہیں ہے-