ترکی میں سعودی صحافی کا قتل، سعودی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کا کھلا ثبوت
سعودی عرب میں حکومت مخالف معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی Jamal Khashoggi کی لاش ترکی کے شہر استنبول کے ایک علاقے میں ملی ہے-
روئٹرز نے اس سے قبل ترکی کے بعض حکام کے حوالے سے لکھا تھا کہ استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے- سعودی عرب پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی منگل کے روز ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوئے تھے مگر وہاں سے لاپتہ ہو گئے۔ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے سے پہلے سعودی قونصلیٹ میں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
جمال خاشقجی کی منگیتر کے مطابق وہ استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے تھے اور اس کے بعد سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی اطلاعات موصول ہوئیں- جمال خاشقجی کا نام سعودی عرب کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے ستمبر دو ہزار سترہ سے ترکی میں مقیم تھے۔
جمال خاشقجی 2003 میں اخبار الوطن کے ایڈیٹر تھے جنہیں سعودی عرب کی وزرات انٹلی جنس نے اس عہدے سے برطرف کردیا تھا اور 2010 میں اس کام پر واپسی کے بعد وہ اس عہدے سے استعفے پر مجبور ہوگئے۔ پھر انہوں نے عالمی اخبارات ، جریدوں اور ذرائع ابلاغ میں کام کرنا شروع کیا۔ خاشقجی ستمبر 2017 میں ایک تنقیدی مضمون لکھنے کے سبب سعودی عرب کو چھوڑنے پر مجبور کئے گئے اور گذشتہ منگل کے روز ترکی میں قتل کردیئے گئے-
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا واضح مطلب یہ ہے کہ سعودی حکومت پر تنقید کرنے والے بیرون ملک بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ترک صدر کے مشیر نے جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کی خبر کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے صحافی خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کے 15 افراد ملوث ہیں۔ ترکی کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا اپنی ابتدائی تفتیش کے نتائج میں ماننا ہے کہ ایک خاص ٹیم کو استنبول بھیج کر اس صحافی کو قتل کیا گیا اور وہ اسی دن واپس بھی چلے گئے۔ پولیس کی جانب سے تصدیق کے بعد یہ خبر آئی کہ سعودی عہدیداروں سمیت 15 شہری دو الگ الگ پروازوں میں استنبول پہنچے اور اسی دوران معروف صحافی بھی قونصل خانے میں موجود تھے۔ ادھر نیویارک ٹائمز کے مطابق سعودی عرب کے منتقد صحافی کو اغوا کرکے استنبول میں سعودی عرب کے قونصلخانہ میں قید میں رکھا گیا جہاں اسے شدید شنکنجوں کے بعد قتل کردیا گیا۔
اس سے قبل سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ سعودی صحافی استنبول میں سعودی قونصلخانہ میں قیام کے بعد وہاں سے خارج ہوگئے تھے۔ سعودی حکام اور ذرائع ایسے میں خاشقجی کے سعودی قونصلیٹ سے نکلنے کا دعوی کر رہے ہیں کہ کسی نے بھی حتی ان کی منگیتر نے بھی ان کو وہاں سے نکلتے نہیں دیکھا۔ دوسری جانب ترکی کے سیکورٹی ذرائع نے بھی تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ سیکورٹی کیمروں میں قید تصاویر بھی قونصلیٹ سے ان کے نکلنے کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں-
ان واقعات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے ترکی اور دیگر ملکوں میں اپنے سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو، قتل کی وارداتوں کے لئے سرکاری جگہ میں تبدیل کردیا ہے۔ سعودی عرب نائن الیون جیسے واقعات میں بھی ملوث رہا ہے اور برسوں سے سیکورٹی حلقے پوری دنیا میں سعودی عرب کے منفی کردار اور دہشت گردوں کے لئے اس کی حمایت کے باعث تشویش میں مبتلا ہیں-
سعودی مخالف صحافی خاشقجی کے قتل کے مختلف پہلوؤں کے واضح اور روشن ہوجانے کے بعد ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ عالمی برادری اور ترکی، سعودی عرب کی ان خفیہ سرگرمیوں پر ٹھوس ردعمل ظاہر کرے کہ جن کو وہ اپنے سفارتی اداروں کے ذریعے انجام دے رہا ہے۔ ان اقدامات کے مقابلے میں خاموشی ، محض سرکاری دہشت گردی کا دروازہ کھلا رہنے مترادف ہوگی-