Nov ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۷ Asia/Tehran
  • سلامتی کونسل کے صدر کی طرف سے یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر نے ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اِسی سال 8 مئی کو جامع ایٹمی معاہدہ سے نکلنے اور اگست اور نومبر میں ایران پر نئی ایٹمی پابندیاں لگائے جانے کا اعلان کیا تھا۔ جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کی علیٰحدگی کے بعد ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کی وسیع پیمانے پر مخالفت ہو رہی ہے۔

اسی سلسلہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ صدر اور مستقل چینی رکن ماژاؤشُو نے جامع ایٹمی معاہدہ کی حمایت کرتے ہوئے ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ رواں ماہ یعنی نومبر میں سلامتی کونسل کی صدارت چین کے پاس ہے لہٰذا ماژاؤشو نے جمعرات کے روز سلامتی کونسل کی نومبر کے مہینہ کی سرگرمیوں کے بارے میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ اس بات سے اتقاق کرتے ہیں کہ امریکہ کی یک طرفہ پابندیاں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231  کی خلاف ورزی ہیں؟ کہا کہ ”اس سلسلہ میں ہمارا قومی موقف پوری طرح سے واضح ہے اور آپ سب بھی اس سے بخوبی واقف ہیں۔ ہم کسی بھی ملک کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کے مخالف ہیں۔“ دیگر ممالک، خاص طور سے امریکہ کے مخالفین اور حریف ممالک، کے خلاف مختلف پابندیاں لگانا ڈونالڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ یوریشیا اور یورپی امور میں امریکی وزیر خارجہ کے معاون آرون ویس میچل نے کہا ہے کہ ”پابندیاں اسٹریٹیجک طریقہ ہیں، اس وقت بھی امریکہ نے پوری دنیا میں 4190 پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔“

اسی سلسلہ میں ٹرمپ حکومت نے جامع ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کا اعلان کیا۔ یہ پابندیاں دو مرحلوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے مرحلہ میں گزشتہ 6 اگست کو پابندیاں عائد کی گئیں اور دوسرے مرحلہ کی پابندیاں آئندہ 5 نومبر کی صبح سے عائد کی جائیں گی۔ ادھر جامع ایٹمی معاہدہ میں شامل دیگر فریقوں نے، جن میں یورپی یونین، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، جامع ایٹمی معاہدہ کو باقی رکھے جانے پر زور دیا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی شعبہ کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے کہا ہے کہ یورپی یونین ایٹمی معاہدہ کے اقتصادی مفادات سے ایرانی استفادے کے لئے خصوصی میکینزم بنائے جانے کی پابند ہے۔ موجودہ صورت حال میں نئی اور دو مرحلوں پر مشتمل ایٹمی پابندیاں عائد کرنے سے امریکہ کا اصل مقصد ایران اور دیگر ممالک کے مابین ہر طرح کے مالی، بینک کاری، تجارتی اور اقتصادی معاملات اور تیل کی فروخت پر پابندی لگانا ہے تاکہ بالآخر ایرانی اقتصاد بےجان ہوجائے۔ امریکی وزیر خارجہ کے سینیئر پالیسی مشیر اور ایرانی امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے برائِن ہُک نے کہا ہے کہ ”واشنگٹن ایران کے خلاف پابندیوں کے بارے میں سنجیدہ ہے۔“

درحقیقت امریکہ ایران کے خلاف اقتصادی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ امر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا سبب بنا ہے اور امریکہ کے اس اقدام کے نتائج کے بارے میں سنگین خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ کا رویہ صرف دھونس دھمکی اور زورازوری پر مبنی ہے جبکہ ایران نے گزشتہ 40 سال کے دوران امریکی پابندیوں کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کرکے امریکی سازشوں کو بے اثر اور ناکام بنایا ہے۔ دریں اثنا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ صدر کی طرف سے یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت اس سلسلہ میں اس اہم بین الاقوامی ادارے کے مجموعی رجحان کی علامت ہے جس کا فریضہ بین الاقوامی امن و سلامتی کا قیام ہے۔ 

 

 

ٹیگس