Nov ۱۳, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۷ Asia/Tehran
  • امریکی اقدامات کے مقابلے میں کردار ادا کرنے کے لئے ایٹمی سمجھوتہ یورپ کے لئے آخری موقع

امریکی پابندیوں کے زمانے میں ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھنے کے لئے یورپی ممالک کی کوششیں اور ایران کے ساتھ جاری تعاون غور طلب ہے تاہم ابھی بریسلز کی جانب سے بھرپور عزم کی علامتیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں -

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے تہران میں پیر کو جرمنی کے سابق وزیرخارجہ اور ان کی زیرقیادت وفد سے ملاقات میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر مبہم صورت حال پیدا کردی ہے کہا کہ اگر یورپ ، امریکہ کے مقابلے میں مستقل کردار ادا کرے تو یہ یورپی ممالک کے مفاد میں ہوگا-

 یورپی حکام ، پابندیاں شروع ہونے سے پہلے با رہا ایک خاص میکانیزم قائم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں اور وعدہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے لئے امریکی پابندیوں کے مقابلے میں یورپی کمپنیوں کی حمایت کریں گے - اس فیصلے کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر روس ، فرانس، جرمنی ، برطانیہ ، چین اور ایران کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر مشترکہ اعلامیے میں منظوری دی گئی - لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی پابندیوں کے مقابلے میں یورپی یونین کا میکانیزم کس حد تک موثر و مفید ہوگا؟

 روس کی معروف اقتصادی نظریہ پرداز اور ماسکو ہائیر اسکول آف ایکونامکس کی پروفیسر یولیا سوشنیکووا نے روزنامہ کامرسنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  یورپ ، ایران کو کہ جس نے خبر دار کیا ہے کہ ممکن ہے وہ ایٹمی سمجھوتے سے باہرنکل جائے، اطمینان دللانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں خاص میکانیزم کا قیام بلاشبہ ایک مثبت اقدام ہے لیکن واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے کام کرے گا اور کیا موثر واقع ہوگا-؟

اس اقتصادی ماہر کا خیال ہے کہ قوی امکان یہ ہے کہ یہ مسئلہ یورپ کے متوسط اور چھوٹے تاجروں کی توجہ کا باعث بنے لیکن ٹوٹل جیسی بڑی کمپنیاں ، عالمی مالی نظام سے حد سے زیادہ ہماہنگی رکھتی ہیں اور واشنگٹن کی پابندیوں کا نشانہ بنیں گی- اس مسئلے کی پیشگوئی کہ یہ اقدامات ایران کے ساتھ یورپی کمپنیوں کے تعاون پر زیادہ موثر ہوں گے ، مشکل ہے- 

لیکن اس سلسلے میں بعض ماہرین یورپی یونین کے اقدامات کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں -

 روس کے سیاسی تحقیقاتی مرکز کے ماہر انڈرے باکلیٹسکی کا خیال ہے کہ بریسلز  سنجیدگی سے واشنگٹن کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا - اس کے باوجود جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں امریکہ کے حوالے سے  موجود بعض اختلاف نظر کے باوجود ، عالمی سطح پر امریکہ کی یکطرفہ پسندی کی سنجیدہ  مخالفت پائی جاتی ہے -

فرانس کے سابق وزیراعظم دومینیک دوویلپن ، امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ یکطرفہ پسندی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آنے والے اداروں کو ختم کرنے کے درپے ہے اور مشرق و مغرب کے درمیان اختلاف ڈالنا بھی امریکہ کا ایک مقصد ہے-

ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کے تناظر میں  یورپی یونین اور دیگر ملکوں  پرمسلط کیا جانے والا اقتصادی نقصان ، قضیئے کا ایک سرا ہے جبکہ دوسرا سرا ، امریکی دباؤ کے مقابلے میں یورپ کی آزادی عمل و خودمختاری کو تولنا بھی ہے- 

ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کا یکطرفہ طور پر باہر نکل جانا اور ایران کے خلاف پابندیاں عائد کردینا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے منافی اور عالمی برادری کے موقف کی بے احترامی اور اسے نظرانداز کرنے کے مترادف ہے - اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں امریکی دعوے بے بنیاد ہیں - ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ نے تیرہویں بار تصدیق کی ہے کہ ایران اٹمی سمجھوتے پر پوری طرح عمل پیرا ہے - اس بنا پر یورپ کوچاہئے کہ وہ اپنی حیثیت اور مفادات کا دفاع کرنے کے لئے جلد سے جلد اپنے وعدوں پر عمل کرے-

 

ٹیگس