خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں امریکی ڈرامہ
سعودی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا ایک واضح ثبوت استنبول میں سعودی قونصلخانے میں اس ملک کے معروف نقاد اور صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے -
خاشقجقی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلخانے میں داخل ہوئے لیکن پھر کبھی باہر نہیں آئے- سعودی حکومت کے ہاتھوں خاشقجی کے ظالمانہ قتل کی کہ جس کا سعودی حکومت بھی اعتراف کرچکی ہے، عالمی سطح پر زبردست مذمت کی گئی اور یورپی و امریکی حکام نے بھی اسے ہدف تنقید بنایا -
سعودی حکومت کے اس غیرانسانی سلوک پر واضح ردعمل ظاہر کرنے اور سعودی حکومت کو سزا دینے کے لئے امریکی حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ سے مجبور ہو کر ٹرمپ حکومت نے آخر کار اس سلسلے میں ایک اقدام کر ہی دیا - چنانچہ اس سلسلے میں امریکہ وزارت خزانہ نے جمعرات کو ایک فہرست جاری کی جس میں سترہ سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کردیں جس میں معزول شدہ مشیر دربار سعود القحطانی ، استنبول میں سعودی قونصلر محمد العتیبی ، اور بن سلمان کے قریبی سمجھے جانے والے انٹیلیجنس افسرماہر المطرب کا نام بھی شامل ہے- تاہم واشنگٹن کے اس نمائشی اور ڈرامائی اقدام پر ناقدین اور امریکی کانگریس نے شدید تنقید کی ہے - اس سلسلے میں ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے ریاض کے بارے میں واشنگٹن کے اس نہایت نرم موقف کو ایک غیرموثر اور نمائشی اقدام قرار دیا ہے-
رینڈ پال نے اس فہرست میں شامل بعض افراد کو سزائے موت دیئے جانے کے امکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے عالم میں جب انھیں سزائے موت کی فکر لاحق ہے توان پر پابندیاں عائد کی جائیں یا نہ کی جائیں کیا فرق پڑتا ہے؟- انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس طرح کے اقدامات کو ریاض کی تنبیہ نہیں سمجھا جا سکتا کہا کہ سعودی عرب کے لئے ہتھیاروں کا موضوع اہم ہے کیونکہ اگر امریکہ اس کی مدد نہ کرے تو اس کی فضائیہ پرواز کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی- پال کے بقول بعید نظر آتا ہے کہ سعودی عرب جیسی ایک ایسی حکومت کہ جہاں اقتدار کی باگ ڈور ایک شخص کے ہاتھ میں ہے وہاں ولیعھد کی ہماہنگی اور اجازت کے بغیر کوئی اقدام انجام پائے- امکان تو یہ ہے کہ انھیں خاشقجی کے قتل کی خبر تھی اور وہی اس کی نگرانی کررہے تھے- اس امریکی سینیٹر نے جمعرات کو یمن کے خلاف سعودی فوجی اتحاد میں شامل بحرین کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے لئے قرارداد منظور کرانے کی ناکام کوشش کی تھی - بدھ کو امریکی ایوان نمائندگان میں بھی اسی جیسی ایک کوشش کی گئی تھی کہ جس میں امریکی حکومت کو ریاض کی حمایت ختم کرنے کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس کوشش کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا- اس طرح واضح ہے کہ امریکہ کبھی بھی علاقے میں اپنے سب سے اہم اتحادی سعودی عرب کے خلاف کسی طرح کا کوئی سنجیدہ اور موثر تنبیہی اقدام نہیں کرے گا- امریکی صدر ٹرمپ کی نگاہ میں سعودی حکومت دودھ دینے والی گائے کی مانند ہے جسے آخر تک دوہنا چاہئے- ٹرمپ پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیاں نہیں عائد کریں گے- کیونکہ سعودی عرب ان کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار شمار ہوتا ہے- اس کے ساتھ ہی امریکہ کو علاقے میں اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے بھی سعودی عرب کی ضرورت ہے - شام کے امور میں امریکی مندوب جیمز جفری کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کو ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب سے بہتر کوئی اتحادی نہیں ملے گا- اس صورت حال میں بخوبی واضح ہے کہ سعودی ولیعھد محمد بن سلمان کو یقین ہے کہ واشنگٹن کبھی بھی ان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرے گا اور اسی لئے وہ اپنے اندرونی اور بیرونی ناقدین کے خلاف پرتشدد ترین اقدامات جاری رکھیں گے - اور امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان بولٹن نے بھی ابھی حال ہی دعوی کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں سعودی ولیعھد کا کوئی ہاتھ نہیں ہے-