سعودی عرب اور برطانیہ کی فوجی مشقوں کا آغاز
یمن کے خلاف آل سعود کے جنگی جرائم کے ارتکاب کے سبب، سعودی عرب کے خلاف پابندیاں عائد کئے جانے کے عالمی مطالبے کے باوجود، سعودی عرب اور برطانیہ کی مشترکہ فوجی مشقیں، ریاض میں ملک فہد فوجی ایئربیس میں شروع ہوگئی ہیں کہ جو دو ہفتے تک جاری رہیں گی-
یہ فوجی مشقیں ایسی حالت میں انجام پا رہی ہیں کہ مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ ، کہ جو سعودی عرب کو ہتھیار برآمد کرنے والا دوسرا ملک ہے، شدید طورپر عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں ہے تاکہ ریاض کے لئے ہتھیاروں کی برآمدات بند کرے اور اس ملک کے ساتھ فوجی تعاون کرنے سے اجتناب کرے- سعودی عرب ، امریکہ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور چند دیگر ملکوں کی مدد و حمایت سے مارچ 2015 سے یمن کے خلاف آئے دن حملے کر رہا ہے اور اس ملک کا بری ، بحری اور فضائی محاصرہ بھی کر رکھا ہے- سعودی عرب نے جنگ کے آغاز کے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ محض چند دنوں میں ہی یمن کو خاک سے یکساں کردے گا اور اپنے سیاسی مقاصد اور مطالبات کو بھی اس ملک کےعوام پر مسلط کر دے گا- لیکن یہ جنگ کہ جو تقریبا چار سال سے جاری ہے اور عملی طور پر ایک طولانی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے، دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ جارح سعودی اتحاد کو انصاراللہ کی قیادت میں یمن سے سخت شکست اور ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور اس مسئلے نے سعودی اتحاد اور اس کی حامی مغربی حکومتوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے-
ایسے حالات میں سعودی عرب کو جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے عمل میں شدت اور مغرب کی جانب سے زیادہ سے زیادہ تخریبی اقدامات اور قتل عام، نیز ان کے درمیان فوجی تعاون منجملہ مشترکہ فوجی مشقیں، درحققیت سعودی عرب کی نام نہاد فوجی بنیاد مستحکم کرنے کے مقصد سے ہیں- لیکن مغربی حکومتوں کے یہ اقدامات بھی سعودی عرب کی شکستوں اور ناکامیوں کا عمل جاری رہنے میں مانع نہیں بن سکے ہیں- درحقیقت برطانیہ اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تبادلۂ خیال اور ان کی مشترکہ فوجی مشقیں، یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی ناکامیوں اور اس ملک کے فوجیوں کے حوصلے کمزور ہونے سے غیرمربوط بھی نہیں ہیں- سعودی عرب اور برطانیہ ایسی حالت میں مشترکہ فوجی مشقیں انجام دینے کا اقدام کر رہے ہیں، یا بالفاظ دیگر نام نہاد طاقت کا اظہار کر رہے ہیں کہ آل سعود حکومت ، مغربی حکومتوں منجملہ برطانیہ کی حمایت کے باوجود، خود ہی اس جنگ کے دلدل میں پھنس چکی ہے کہ جس کا آغاز خود اسی نے کیا ہے-
سعودی عرب نے فوجی مشقوں کے انعقاد کے لئے بھاری رقم خرچ کرنے کے ساتھ ہی، ہتھیاروں کی خریداری کے لئے بھی بھاری رقم مختص کی ہے- اس سلسلے میں ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر ایک سو دس ارب ڈالر کے فوجی ہتھیاروں کے معاہدے اور مجموعی طور پر اس دورے میں چار سو اسّی ارب ڈالر کے معاہدے ، نیز مارچ 2018 میں ٹائیفون طیارے کی خریداری کے لئے برطانیہ کے ساتھ چودہ ارب ڈالر کے معاہدے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے-
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب کے ہاتھوں برطانوی ٹائیفون جنگی طیاروں کی فروخت پر برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سودے کا مطلب یمن کے بحران کی آگ پر پٹرول ڈالنا ہے۔
مغربی طاقتوں نے آل سعود کے پٹرو ڈالر کے لئے اپنے خصوصی اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی حکومتوں کے نقطہ نگاہ سے عرب حکام خاص طور پر سعودی حکمراں ایک دودھ دینے والی گائے کی مانند ہیں کہ جن کو مختلف طریقوں سے دوہا جا سکتا ہے- مغربی ممالک، سعودی عرب کو علاقے کی طاقت میں تبدیل کرنے کا سبز باغ دکھا کر، سعودی اقتدار کو خوابوں کے سراب میں غرق کردینا چاہتے ہیں-
دوسری جانب سعودی عرب کی ثروتمند لابی بھی مسلسل تبادلۂ خیال کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ یورپ اور امریکہ سے ہتھیار خرید سکے۔ ایسے حالات میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف احتجاج میں اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ عالمی رائے عامہ اس صورتحال سے راضی نہیں ہے اور اگر رائے عامہ کے احتجاج سے بے توجہی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یقینا احتجاج میں مزید شدت آئے گی اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت کرنے والے ممالک پر دباؤ بڑھے گا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ مغرب کا مقصد علاقے میں صرف اسرائیل کو برتری دینا، اور علاقے کے بیشتر عرب ملکوں کو اسرائیلی فوج کے جاسوسی کے اڈوں میں تبدیل کرنا ہے- اہم نکتہ یہ ہے کہ ہتھیار بنانے والے دیگر مغربی ملکوں کی مانند برطانیہ بھی، زیادہ سے زیادہ اپنے ہتھیاروں کی فروخت کے درپے ہے اور بنیادی طور پر انسانی حقوق کے ان دعویدار ملکوں کے نزدیک انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اسے صرف ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں-