ایٹمی معاہدہ مشکل سے دوچار ہے: عباس عراقچی
اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ایران کے مفادات مکمل طور پر حاصل نہیں ہوئے جس سے جوہری معاہدہ مشکل کا شکار ہے-
ان خیالات کا اظہار ایران کے نائب وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے پیر کے روز بریسلز میں ایران اور یورپ کے پُرامن جوہری تعاون سے متعلق تیسرے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا- انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدہ ایک اہم سیاسی کامیابی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس معاہدے کے تعلق سے کئے گئے اپنے وعدوں پر مکمل طور پر قائم ہے-عراقچی نے کہا کہ عالمی جوہری توانائی کے ادارے نے 13 مرتبہ ایران کی دیانتداری کی تصدیق کی ہے مگر اس کے باوجود اس معاہدے کے تحت ہمیں خاطرخواہ معاشی فائدہ نہیں ملا ہے-
اعلی ایرانی سفارتکار نے بتایا کہ جوہری معاہدہ صرف امریکہ یا ایران تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی سمجھوتہ ہے جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2231 کے ذریعے توثیق کی ہے.انہوں نے کہا کہ امریکہ ایران جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد دوسرے ممالک کو اس معاہدے پر قائم رہنے کی سزا دے رہا ہے.عراقچی نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے کا تحفظ ایک عالمی ذمےد اری ہے لہذا تمام فریقین کو چاہئے کہ اس معاہدے کے نفاذ کے لئے بھرپور کوشش کریں.انہوں نے جوہری معاہدے کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے یورپی یونین کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایرانی مفادات کی فراہمی اور امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے.عراقچی نے اس بات پر انتباہ دیا ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو جوہری معاہدے سے فائدہ نہ ملا تو یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا.
ایران اور یورپی یونین کے پرامن جوہری تعاون سے متعلق تیسرا سیمینار " کامیابیاں اور توقعات" کے زیرعنوان پیر کے روز بریسلز میں شروع ہوا اور آج منگل کو اختتام پذیر ہوگا۔ یہ سمینار ایسی حالت میں منعقد ہوا ہے کہ ایران اور تین یورپی ملکوں کے مذاکرات، مخصوص مالی میکنزم کے حصول کے مقصد سے جاری ہیں-
ایٹمی معاہدہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے کہ جس کی تائید و توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین نے قرارداد نمبر بائیس اکتیس کے دائرے میں کی ہے- لیکن امریکہ کے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جانے اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرنے سے نہ صرف اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ امریکی پابندیوں کی دوبارہ بحالی کے سبب ایرانی مفادات کے حصول کی سطح صفر تک پہنچ گئی ہے-
امریکی صدر کے اقدامات نے ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کے لئے بھی مسائل پیدا کردیئے ہیں- اس وقت امریکی پابندیوں اور دھمکیوں کے سبب بین الاقوامی کمپنیوں کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہے کہ جس کے لئے ضروری ہے کہ یہ کمپنیاں سمجھوتے کی حفاظت اور اس کی بقا کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں- یورپی یونین کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ امریکی دباؤ کے سامنے ڈٹ جائے لیکن یہ کہ اس کے اقدامات کس حد تک سودمند ثابت ہوں گے، قابل غور ہے-
ایسے حالات میں ایران کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لئے، بڑی کمپنیوں کو ترغیب دلانے کے مقصد سے انجام پانے والے اقدامات ناکافی رہے ہیں ۔ اسی سبب سے ایران کے نائب وزیر خارجہ نے بریسلز میں اس امید کا اظہار کیا کہ یورپ، امریکی پابندیوں کے منفی اثرات کو روکنے اور ایران اور یورپی کمپنیوں کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ کے لئے عملی اقدامات اٹھائے-
ایران کے صدر کے مشیر حمید ابوطالبی نے مئی کے مہینے میں ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ یورپی یونین کو چاہئے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق تمام سیاسی ، اقتصادی اور سیکورٹی حقوق کو ضمانت فراہم کرے- اگرچہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے مقصد سے اقتصادی ضمانتوں تک رسائی کے لئے طولانی راہ درکار ہے- لیکن یہ مسلمہ امر ہے کہ اگر فریقین اس سمجھوتے کا تحفظ نہ کرسکیں تو پھر یورپ کے ساتھ تعلقات میں عدم اعتماد کی فضا ہموارہوگی اور پھر ایٹمی معاہدے کے حوالے سے حتمی اور آخری فیصلہ ایران کا ہی ہوگا-