ایران کے میزائل پروگرام کو محدود نہیں کیا جا سکتا
امریکی وزارت خارجہ میں ایران ایکشن گروپ کے سربراہ برایان ہوک نے یورپی ملکوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کا بائیکاٹ کریں-
برایان ہوک نے پیر کو امریکی وزیر خارجہ پامپئو کے ساتھ بریسلز کے دورے کے موقع پر نامہ نگاروں کے اجتماع میں کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یورپی یونین ایران کا بائیکاٹ کرے اور ایران کے میزائل پروگرام کو ہدف قرار دے- ہوک نے اس بات کا دعوی کیا کہ امریکہ اور یورپی ممالک ایران کے میزائل پروگرام کو جو خطرہ قرار دے رہے ہیں، وہ ان کا مشترکہ نظریہ ہے اور یورپی ممالک یہ جانتے ہیں کہ ایران نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے-
گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپؤ نے بھی ایران کی میزائیلی صلاحیت کو خطرہ ظاہر کرنے اور امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے یورپی ملکوں کو ترغیب دلائے جانے کے مقصد سے دعوی کیا کہ تہران نے درمیانے رینج کے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو متعدد ایٹمی وار ہیڈز اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 سے متعلق اشتعال انگیز بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ امریکہ نے نہ صرف خود اس قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ وہ دوسرے ممالک کو بھی اس پر عمل کرنے کی صورت میں سزا دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے- انہوں نے کہا کہ پامپیئو، میزائل سے متعلق ایرانی پالیسی سے واقف نہیں ہیں۔ ایران کی پالیسی واضح ہے اور ہم ایک بار پھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ میزائل پروگرام اندرونی معاملہ ہے جس کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانا ہے.
ایٹمی معاہدے سے نکلنے سے پہلے ، واشنگٹن نے ایک سناریو میں یمن کی تحریک انصاراللہ کی جانب سے ریاض پر داغے گئے ایک میزائل کے کچھ ٹکڑے دکھاکر یہ ثابت کرنا چاہا تھا کہ یہ میزائل ایرانی ساخت کے ہیں اور اس طرح امریکی حکام نے ایران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یمن کے لئے ہتھیاروں کی فروخت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جو پابندی لگائی ہے، ایران نے اس کی خلاف ورزی کی ہے- ٹرمپ حکومت نے اس سناریو کے لئے یورپی ملکوں اور چین اور روس کو بھی اپنے ہمراہ کرنے کے مقصد سے ان ملکوں کے دوروں میں اضافہ کردیا تاکہ اپنے گمان میں دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ ایران کا میزائل پروگرام خطرہ ہے- لیکن بہت جلد ہی امریکی دعوے کا جھوٹ ہونا واضح اور آشکار ہوگیا-
چنانچہ اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے کہا کہ یمن سے سعودی عرب پر داغے جانے والے میزائلوں کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے کہ یہ کس ملک کے بنے ہوئے ہیں- فارن پالیسی جریدے نے بھی ایک تجزیے میں لکھا کہ جو شواہد وائٹ ہاؤس کی نئی حکومت نے پیش کئے ہیں، ان کی اقوام متحدہ نے تصدیق نہیں کی ہے اور میزائل کے جو ٹکڑے دکھائے گئے ہیں ان حصوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ امریکی ساخت کے ہیں- یہ دعوے اور پروپیگنڈے ایسی حالت میں کئے جا رہے ہیں کہ ایران کا میزائل پروگرام مکمل طور پر دفاعی ہے-
ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر امیر حاتمی اس سلسلے میں کہتے ہیں" دشمنوں کی اسٹریٹیجی ایران کے قومی اقتدار اور دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے- لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اپنے تمام وجود کے ساتھ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ کوئی ہمارے ملک کی دفاعی طاقت کو نقصان پہنچائے- امریکی پالیسی کچھ اس طرح سے تیار کی گئی ہے کہ ایٹمی معاہد کے حامی یورپی ممالک کو اس امر پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے بجائے، اپنی توجہ ایران کے میزائل پروگرام اور اس کی دیگر سرگرمیوں پر مرکوز کرے-
ایران نے اس سلسلے میں یورپ کو بہت واضح پیغام دے دیا ہے- ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپی ملکوں کے موقف کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات بہت واضح اور شفاف ہیں- رہبر انقلاب اسلامی نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی برسی کے موقع پر یورپی ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایران کے میزائل کے ترقیاتی پروگرام کو محدود کرنا ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا -