Dec ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۳ Asia/Tehran
  •  خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکوں کے درمیان اتحاد و باہمی تعاون کا فقدان

خلیج فارس تعاون کونسل کا انتیسواں سربراہی اجلاس گذشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا جس میں قطر،عمان اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں نے شرکت نہیں کی-

خلیج فارس تعاون کونسل، 1981 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر اورعمان کی شرکت سے تشکیل پائی تھی- اور طے یہ پایا تھا کہ یہ کونسل سیکورٹی، سیاسی اور اقتصادی مسائل میں ایک دوسرے کا تعاون کرے گی- اس کونسل کو تشکیل پائے سینتیس سال کا عرصہ ہوچلا ہے اور گذشتہ روز ریاض میں اس کونسل میں ہر دور سے زیادہ ان ملکوں کے درمیان باہمی تعاون اور اتحاد کا فقدان دیکھا گیا اور ان کے درمیان تعاون کی جگہ اختلاف نے لے لی ہے- ان اختلافات کو چند علامتوں کے تناظر میں بیان کیا جا سکتا ہے-

سب سے پہلی اور اہم اختلاف کی علامت، ریاض اجلاس میں قطر کے امیر " ‎تمیم بن حمد آل ثانی " کی عدم شرکت اور ان کی جگہ، خارجہ امور میں وزیر مملکت "سلطان بن سعد المریخی" کی شرکت تھی- درحقیقت امیر قطر نے حتی اس ملک کے وزیر خارجہ کو بھی اس اجلاس میں نہیں بھیجا تاکہ دوحہ اور ریاض کے درمیان اختلافات جاری رہیں اور یہ کہ عملی طور پر ریاض اجلاس کا کوئی اعتبار نہ رہ جائے- 

قطر کے وزیر خارجہ "محمد بن عبدالرحمان آل ثانی" پہلے ہی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کا محاصرہ کئے جانے کے بعد، خلیج فارس تعاون کونسل کے اقدامات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ کونسل کس طرح سے بعض عرب ملکوں کے آلہ کار میں تبدیل ہو گئی ہے۔

 گذشتہ سال کویت اجلاس میں بھی ایسی ہی صورتحال پیش آئی تھی اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، کویت اورعمان نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی- خلیج فارس تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی سطح کا معیار نیچے آنے سے عملی طور پر یہ کونسل اپنا شیرازہ بکھرجانے کے قریب ہے- جیسا کہ یہ گمان بھی کیا جا رہا ہے کہ قطر حکومت، خلیج فارس تعاون کونسل سے بھی خارج ہوسکتی ہے- 

خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکوں کے درمیان اختلاف کی دوسری علامت، عمان کے بادشاہ "سلطان قابوس" کی عدم شرکت ہے- متحدہ عرب امارات کے بادشاہ، مدتوں سے عوام کے درمیان نہیں آئے ہیں اور ابوظہبی کے ولیعہد "محمد بن زائد آل نھیان" بھی کہ جو اس ملک کے غیر سرکاری بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بھی ریاض اجلاس میں شریک نہیں ہوئے- اس بنا پر ریاض میں منعقدہ خلیج فارس تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں متحدہ عرب امارات کی عدم شرکت کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن عمان کے بادشاہ "سلطان قابوس" کی عدم شرکت اس کونسل کے لئے ایک پیغام کی حامل ہے- اس عدم شرکت کا پیغام یہ ہے کہ کونسل کے اراکین خاص طور پرعمان، قطر اور کویت ، سعودی عرب کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں اور ان پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں- یہ مسئلہ گذشتہ روز کے اجلاس میں امیرکویت نے بھی اپنی تقریر میں بیان کیا - ریاض اجلاس میں امیرکویت "صباح الاحمد الجابر الصباح" نے کنائے میں یمن کے خلاف سعودی عرب کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ یمن میں لڑائی کا جاری رہنا، علاقے کے ملکوں کے خلاف براہ راست خطرہ ہے-

خلیج فارس تعاون کونسل میں اختلاف کی تیسری علامت، اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اس کونسل کے درمیان مختلف مواقف کا پایا جانا ہے- ریاض اجلاس میں سعودی بادشاہ "ملک سلمان" نے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران پر، علاقے کے ملکوں کے خلاف دشمنانہ پالیسی اپنائے جانے اور دیگر ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا- اس کے ساتھ ہی امیر کویت "صباح الاحمد الجابر الصباح" نے سعودی بادشاہ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے دائرے میں ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں- یہ ایسے میں ہے کہ قطر اور عمان کی حکومتوں کے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں اور حتی قطر کی حکومت نے بھی گذشتہ سال، ایران کے ساتھ رابطے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران ایک ایسا پڑوسی ملک ہے کہ جو اپنے پڑوسی ملکوں کے امور میں مداخلت نہیں کرتا ہے-

ان ہی حالات اور اختلاف کے مصادیق کے پیش نظر ، کہا جا سکتا ہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل عملی طور پر ختم ہوچکی ہے اور اس کونسل سے قطر کے نکل جانے کا بھی امکان پایا جاتا ہے- کویت کے امیر "صباح الاحمد الجابر الصباح" نے گذشتہ روز ریاض میں اعتراف کیا کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے درمیان جاری اختلافات، اس کے اتحاد کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں-         

ٹیگس