جنگ اور مصائب و آلام، علاقے میں اغیار کی موجودگی کا نتیجہ
اسلا می جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ طاقتور ملکوں کے حکمرانوں نے علاقے کو ،جنگ اور مصائب و آلام کے سوا کچھ اور نہیں دیا ہے کہا کہ اس وقت طاقتور حکمرانوں کی نہیں بلکہ طاقتور علاقے کی ضرورت ہے-
وزیر خارجہ جواد ظریف نے اتوار کو ٹوئیٹر پیج پر، تہران میں منعقدہ چھ ملکوں کی پارلیمانی سربراہی کانفرنس کے اجلاس میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے توسط سے ملکوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر تاکید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کو اس وقت مذاکرات، بین الاقوامی قوانین کے احترام ، رواداری، سیکورٹی نیٹ ورک کے قیام ، اقتصادی تعاون اور لوگوں کے درمیان باہمی رابطے کی ضرورت ہے-
تہران میں ہفتے کے روز چھے ملکوں کی پارلیمانی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شریک ملکوں نے، دہشت گردی سے مقابلے کے لئے بین الاقوامی تعاون پر تاکید کی- اس کانفرنس میں جن اہم مسائل پر بات چیت ہوئی ان میں بلاشبہ علاقے کی سلامتی کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لئے باہمی تعاون میں اضافے اور دہشت گردی نیز انتہاپسندی سے مقابلے پر تاکید کی گئی-
اس اجلاس نے صیہونی حلقوں کی توجہ بھی، البتہ ایک دوسرے زاویئے سے اپنی جانب مبذول کی ہے- صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اتوار کی رات ایک تجزیے میں لکھا کہ، ایران کے خلاف امریکی دباؤ اور پابندیوں کے دور میں اس اجلاس کا کامیابی سے تہران میں انعقاد، علاقائی رابطوں کے مستحکم ہونے کا آئینہ دار ہے۔ اس اخبار نے مزید لکھا کہ ایران ایک اہم بین الاقوامی اجلاس کی میزبانی کرکے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی گوشہ نشینی کو برملا کرکے، علاقے اور علاقے سے باہر کے ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے-
اس صیہونی اخبار کے نقطہ نگاہ سے روس، ایران ، چین، ترکی اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات، عالمی اور مشرق وسطی کی سطح پر جاری امریکی پالیسیوں کے لئے اچھی خبر نہیں ہے- یہ ممالک نہ صرف آپس میں مل کر، دنیا کی اہم ترین معیشت اور فوج کے حامل ممالک ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں امریکہ کے لئے چیلنج اور مشکل شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ مشرق وسطی میں امریکی پالیسی نے، سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ تعلقات بڑھاکر اور شام میں اپنے رویوں کے ذریعے واضح طور پر اپنی حیثیت کھو دی ہے- علاقے کے ملکوں کی مشارکت سے پائیدار امن و سلامتی کے دائرے میں باہمی مفاہمت، بلا شبہ علاقے کے ملکوں کے لئے قابل توجہ ہے-
واضح ہے کہ اس طرز فکر کے ساتھ تہران اجلاس کا انعقاد، یروشلم پوسٹ کے نقطہ نگاہ سے امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کے لئے بھی کوئی اچھا واقعہ نہیں ہے- وہ بھی ایسے حالات میں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران علاقے کے ملکوں منجملہ افغانستان، عراق اور خلیج فارس میں امریکی فوج کی موجودگی، نہ صرف امن و استحکام قائم کرنے میں موثر نہیں رہی ہے بلکہ علاقے میں بدامنی اور بحران پیدا ہونے کا بھی سبب بنی ہے- اور اسی تعلق سے دہشت گردی بھی علاقے کے ملکوں کے مشترکہ دشمن میں تبدیل ہوگئی ہے-
امریکہ برسوں سے خود کو انسانی حقوق کا اصلی حامی اور آزادی کا گہوارہ اور دنیا میں ڈیموکریسی کا دفاع کرنے والا متعارف کراتا ہے تاہم امریکن ہیرلڈ ٹریبیون جریدے نے " رابرٹ فانٹیا" کے قلم سے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ افسانہ ، امریکی سرحد سے باہر، بالکل بھی قابل محسوس اور اعتبار کا حامل نہیں ہے بلکہ امریکہ کے اندر بھی اس کے تعلق سے عدم اعتماد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے-
امریکہ کے مشہور نظریہ پرداز نوام چامسکی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ امریکہ ایران کو امن کے خلاف سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے جبکہ پوری دنیا امریکہ کو خطرہ سمجھتی ہے-
حقیقت امر یہ ہے کہ امریکی کارنامہ، اپنی خودمختاری کے وقت سے اب تک یہ رہاہے کہ وہ دنیا کے دوردراز علاقوں میں بھی جنگ و خونریزی کراتا رہا ہے، چاہے براہ راست ہو یا بالواسطہ طریقے سے ہو- ایسی صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقے کے ممالک باہمی تعاون، اورعلاقائی گنجائشوں اور صلاحیتوں پر بھروسہ کریں اور اس پر توجہ دیں-
ایران کے نقطہ نگاہ سے علاقے کی سلامتی، علاقے کے ملکوں کے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قائم ہو تاکہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا راستہ منقطع ہوجائے- اس نقطہ نگاہ سے تہران اجلاس کے کامیابی کے ساتھ انعقاد سے، علاقائی تعاون میں ایران کی صلاحیت و توانائی اور علاقے میں امن و سلامتی قائم کرنے میں ایران کے موثر کردار کی نشاندہی ہوتی ہے- اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی تعبیر کے مطابق اس وقت طاقتور حکمرانوں کی نہیں بلکہ طاقتور علاقے کی ضرورت ہے-