Dec ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۷:۲۰ Asia/Tehran
  • انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور یمنی عوام کے قتل عام میں شدت

یمن کی قومی نجات حکومت کے ترجمان ضیف اللہ الشامی نے کہا ہے کہ نہایت شرمناک ہے کہ ایسے عالم میں جب دنیا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی منظوری کی ستّرویں سالگرہ منا رہی ہے یمن کی قوم کو جاری سعودی اتحاد کے انسانیت دشمن اور وحشتناک جنگی جرائم میں شدت کا سامنا ہے-

 انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (UDHR ایک بین الاقوامی اعلامیہ  ہے جودس دسمبر انیس سو اڑتالیس میں پیرس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظورہوا تھا- یہ اعلامیہ دوسری عالمی جنگ کا براہ راست نتیجہ رہا ہے اور یوں دنیا میں پہلی بار ایسا قانون منظور ہوا جس میں تمام انسانوں کو شامل کیا گیا- مذکورہ اعلامیے میں تیس شقیں ہیں کہ جس میں  اقوام متحدہ کی تشریح کے مطابق انسانوں کے حقوق کا جائزہ لیا گیا ہے-

انیس سو چھہتر میں انسانی حقوق کا یہ بل اکثریت کے ساتھ منظور ہوکرعالمی انسانی حقوق میں تبدیل ہوگیا- اس طرح اس اعلامیے کی شقیں اکثر محققین کی نظر میں واجب العمل ہیں اور بین الاقوامی قانون کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ اسے بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا ہے اور اس پرانسانی حقوق سے متعلق ملکوں کے رویے کو پرکھا جاتا ہے- انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ستّر سال پہلے منظور ہوا تاکہ دوسری عالمی جنگ کو دہرایا نہ جائے اور پہلی بار دنیا کے ملکوں نے انسانوں کے حقوق اورعزت و شرافت کے تحفظ کے لئے ایک عالمی اعلامیے کو منظوری دی - لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ستر سال پہلے منظور ہونے والے انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی پوری طرح پابندی کی گئی ہے ؟ اس اعلامیے کے بعد چند دیگر اعلامیے بھی انسانی حقوق کے بارے میں متعارف کرائے گئے جن میں انیس سو چوراسی میں تشدد کے خلاف عالمی معاہدہ ، انیس سو نوے میں بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین اور انیس سو چوراسی میں عالمی عدالت انصاف کی تشکیل بھی شامل ہے- اس کے باوجود انسانیت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں جرائم کے متعدد واقعات سامنے آئے اور عالمی برادری یا توان کے خلاف کھڑی نہ ہوئی یا کھڑا ہونا نہیں چاہا- فلسطین ، بوسنیا ، روانڈا کے عوام کا قتل عام اور شام ، عراق اور یمن میں جنگی جرائم نیز میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اس کی جملہ مثالیں ہیں چنانچہ آج کل ایک بار پھر موقع ہاتھ آیا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق اور امن کو پامال کرنے والے اہم ترین عناصر اور قیام امن کے لئے ہونے والی مختلف فعالیتوں کا جائزہ لیا جائے تاکہ امن و سیکورٹی اور انصاف کو درپیش خطرات کے کمزور و مضبوط پہلؤوں اور مواقع کو پہچان کر عالمی ادارے منجملہ اقوام متحدہ تعمیری اور مفید انداز میں اپنا کردار ادا کرسکے- اس سال اقوام متحدہ کے دفتر میں انسانی حقوق کے تحفظ کی گھنٹی ایسے عالم میں بجائی گئی ہے کہ جب دنیا کے امن و انصاف اور سیکورٹی کو ایک اہم خطرہ درپیش ہے کہ جس میں خاص طور سے دوہزاراٹھارہ سے سخت شدت نظر آرہی ہے اور اس حوالے سے سعودی عرب  اور علاقائی وعالمی سطح پر آل سعود  کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات قابل ذکر ہیں- سعودی حکومت اپنے مخالفین پرشدید تشدد ، ان کی سرکوبی ، عوامی آزادی کی بدترین خلاف ورزی اور انھیں ابتدائی ترین سیاسی ، سماجی اور شہری حقوق سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس میں مخالفین خاص طور سے سعودی نقاد جمال خاشقجی کا قتل اور یمنی عوام کا وحشیانہ قتل عام بھی شامل ہے کہ جو اس بات کا باعث بنا ہے کہ مختلف بین الاقوامی قوانین کمزورپوزیشن کے حامل ہوگئے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ بین اللاقوامی اداروں اور اس کے مغربی حامیوں نے آل سعود کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر کے اپنے اقدامات سے عالمی امن کو کمزور کرنے اور انسانی حقوق کی پوزیشن مزید متزلزل کرنے کی زمین ہموار کردی ہے اور عالمی قوانین کے سلسلے میں مناسب کارکردگی نہیں دکھائی اور آل سعود کی دولت و ثروت اور پیٹروڈالر کی سفارتکاری کے زیراثر آگئے ہیں- اس صورت حال کے پیش نظر دوہزار اٹھارہ میں عالمی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے سلسلے میں عالمی برادری کی کارکردگی کو بہت کمزور حتی منفی بنا دیا ہے اور یمن میں سعودی عرب کے بے پناہ جرائم کو نظرانداز کیا جانا اسی طرح کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ جس پر یمنی عوام شدید تنقید کررہے ہیں -

ٹیگس