Dec ۱۸, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۵ Asia/Tehran
  •  جرمنی نے سعودی عرب کے لئے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی

علاقے میں سعودی عرب کی دشمنانہ پالیسیوں اور یمن کی جنگ کے جاری رہنے کے ساتھ ہی، بعض یورپی ملکوں نے سعودی عرب کے لئے ہتھیاروں کی فروخت پر نظر ثانی کی خبر دی ہے-

اسی سلسلے میں جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن سیبرٹ  Steffen Seibert نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی  فروخت بند کرنے کے ساتھ ہی  پہلے کے تمام لائسنس بھی منسوخ کردیئے گئے ہیں-

سعودی عرب کے لئے ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ ایسی حالت میں بند کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک مشرق وسطی کو ہتھیار فروخت کرنے والا اہم ملک شمار ہوتا ہے- سعودی عرب، 2017 میں دنیا کے دس ملکوں کے درمیان سب سے زیادہ فوجی اخراجات کا حامل تھا- امریکہ اور یورپ سب سے زیادہ سعودیوں کو ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب کے توسط سے بھاری مقدار میں فوجی ہتھیاروں کی خریداری، علاقے میں عسکریت پسندی کی سطح  اور اس ملک کی دشمنانہ پالیسیوں میں اضافے کا سبب بنی ہے- 

یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کا جاری رہنا اس بات کا باعث بنا ہے کہ سعودی اتحاد کے جارحانہ حملوں میں اب تک ہزاروں یمنی شہری خاص طور پر عورتیں اوربچے شہید ہوچکے ہیں- اسی بناء پر مدتوں سے دنیا بھر کے حریت پسندوں اور انسانی حقوق کے بہت سے حامیوں نے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال کر سعودی عرب کے لئے مغربی ہتھیاروں کی برآمدات بند کئے جانے اور ساتھ ہی یمن کی جنگ کے خاتمے کے لئے ریاض پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے- 

اسی سلسلے میں انسانی حقوق کی کونسل اور جنیوا عدالت نے، سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے کے تعلق سے، یورپ سے متحد موقف اپنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودیوں کو ہتھیار فروخت کرنا ، درحقیقت اس ملک کے غیر انسانی اقدامات خاص طور پر یمن کے خلاف اس کے جارحانہ اقدامات میں شرکت کے مترادف ہے- 

دوسری جانب ترکی کے قونصل میں سعودی عرب مخالف صحافی جمال خاشقجی کا قتل نیز انسانی حقوق کے سلسلے میں سعودی عرب کا سیاہ کارنامہ اور نامہ نگاروں ، مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے اور ان کو گرفتار کرنے جیسے بے شمار جرائم نے سعودی عرب پر حاکم، اس ظالم حکومت کی ماہیت کو ماضی سے زیادہ آشکارہ کردیا ہے-

یہ حالات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ حتی سعودی عرب کے مغربی اتحادی ممالک نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یمن کی جنگ روکے جانے، خاشقجی قتل کے تمام پہلوؤں کو آشکارا کرنے نیز سعودی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کا پابند ہونے کا مطالبہ کیا ہے- ان مطالبات کے باوجود ریاض اپنی جارحانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے اسی بنا پر سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں کی کوشش ہے کہ اس ملک کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے پر نظر ثانی کریں-     

امریکہ نے رواں سال کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں پچپن ارب چھیاسٹھ کروڑ ڈالر کا اسحلہ فروخت کیا ہے۔امریکی ایجنسی برائے سیکورٹی و دفاعی تعاون کے مطابق گزشتہ سال کے دوران امریکہ نے اکتالیس ارب نوے کروڑ کا اسلحہ فروخت کیا تھا جو اس سال بڑھ کر پچپن ارب چھیاسٹھ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔امریکہ دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب خطے میں امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کا اسلحہ شام، یمن اور افغانستان سمیت علاقائی جنگوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں عام شہری مارے جارہے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے دنیا کو اپنے ہتھیاروں کے ذریعے غیر مستحکم کر رکھا ہے اور اچھے مستقبل کی تعمیر میں خرچ ہونے والا بجٹ اسلحے کی نذر کیا جارہا ہے

مغربی ممالک کی کویت اور سعودی عرب جیسے خلیج فارس کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ہتھیار بیچنے کی کوشش اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ رقابت سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب، بنیادی طور پرعرب ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کو ان ملکوں میں جمہوریت کے قیام پر ترجیح دیتا ہے اور خدشہ اس بات کا ہے کہ ان ہتھیاروں کا ایک حصہ علاقے کے عوام کو کچلنے اور دبانے کے لئے استعمال کیا جائے گا –

ان حالات میں ماہرین کا خیال ہے کہ علاقے کے عرب ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کی خریداری، مغرب کے بحرانی اقتصاد کی نجات اور ہتھیاروں کے کارٹل کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا ایک راستہ ہے کیونکہ جنوبی خلیج فارس کے عرب ممالک تیل سے ہونے والی موٹی کمائی کے ذریعے مغربی ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار ہیں-

اگرچہ مغربی ممالک منجملہ جرمنی ، ناروے ، اٹلی ، فنلینڈ۔ سوئیٹزر لینڈ نے سعودی عرب کے لئے ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کی خبر دی ہے اور کینیڈا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی خریداری پر نظر ثانی کرے گا لیکن جو بات مسلم ہے یہ ہے کہ مغربی ممالک نے سعودی عرب کے سلسلے میں دوہرے معیار کی پالیسی اپنا رکھی ہے-

ان میں سے بہت سے ممالک نے اگرچہ رائے عامہ کے دباؤ کے سبب اپنے ہتھیاروں کو سعودی عرب کے ہاتھوں فروخت نہ کرنے کی بات کہی ہے تاہم عملی طور پر وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے اقتصادی اور اسلحہ جاتی تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں-  

  

ٹیگس