اسٹیفین ڈی مسٹورا مستعفی
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفین ڈی مسٹورا نے سلامتی کونسل کو آخری رپورٹ پیش کرنے کے بعد اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
اب تک شام کے لئے اقوام متحدہ کے تین خصوصی نمائندے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلے نمائندے اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان تھے۔ کوفی عنان اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ نمائندے تھے۔ وہ فروری سے اگست سنہ 2012 تک، صرف 6 مہینے، اس عہدے پر فائز رہے اور شام کے بارے میں امن منصوبہ ناکام ہونے پر مستعفی ہوگئے۔ خاص بات یہ ہے کہ کوفی عنان نے مستعفی ہونے کے بعد اس سوال کے جواب میں کہ ”ان کا جانشین کون ہوگا؟“ طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ”یہ عہدہ قبول کرنے والے دنیا میں بہت سے بیوقوف موجود ہیں۔“
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے دوسرے نمائندے اخضر ابراہیمی تھے۔ وہ الجزائری سفارت کار تھے اور سنہ 2012 سے 2014 دو سال تک اس عہدے پر باقی رہے لیکن اس درمیان بحران شام میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔ بحران شام کے بارے میں اخضر ابراہیمی کی کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
شام کے لئے اقوام متحدہ کے تیسرے نمائندے اسٹیفین ڈی مسٹورا تھے اور ان کو یہ عہدہ سیکریٹری جنرل بان کی مون کے دور میں ملا تھا لیکن اب جب انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے تو پچھلے دو سال سے اینٹونیوگوٹیرش اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ اسٹیفین ڈی مسٹورا تقریباً ساڑھے چار سال تک شام کے لئے اقوام متحدہ کے نمائندے رہے لیکن بحران شام میں کمی ان کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ شامی فوج اور دہشت گردی سے مقابلے میں اس کے اتحادیوں کے پختہ عزم کا نتیجہ ہے نیز روس، ایران اور ترکی کی سفارتی کوششوں کا بھی نتیجہ ہے۔ پچھلے چار سال کے دوران شام میں دہشت گردوں کو پےدر پے شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اس وقت شام کا صرف ایک چھوٹا سا علاقہ ہی دہشت گردوں کے قبضے میں ہے۔ دریں اثنا، روس، ایران اور ترکی کی کوششوں سے سفارتی جدت پسندی پر کام ہو رہا ہے اور اب تک کافی سیاسی گرہیں کُھل چکی ہیں۔
71 سالہ اسٹیفین ڈی مسٹورا شام کے امور میں اقوام متحدہ کی نمائندگی کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے سنہ 2001 سے 2004 تک لبنان کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے تھے۔ وہ سنہ 2007 سے 2009 تک عراق کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی تھے اور سنہ 2010 سے 2011 تک افغانستان کے امور میں یہ کام کر چکے ہیں۔ اس لحاظ سے شام کے بارے میں ان کی ناکامی کو ان کی ناتجربہ کاری سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ شام کے بارے میں ڈی مسٹورا اور کلی طور پر اقوام متحدہ کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب کوفی عنان کی اس غیرسفارتی لیکن معنی خیز بات سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ”یہ عہدہ قبول کرنے والے دنیا میں بہت سے بیوقوف موجود ہیں۔“
ایسا لگتا ہے کہ کوفی عنان نے بہت جلد یہ بات سمجھ لی تھی کہ بحران شام کے حل کی راہ میں اصل رکاوٹ شامی حکومت کے مخالف غیرملکی سیاست داں ہیں جو شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ آستانہ مذاکراتی اجلاسوں سمیت بعض مواقع پر اسٹیفین ڈی مسٹورا کے طریقۂ کار سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے خصوصی ایلچی شام کے بارے میں غیر جانبدار رہنے سے زیادہ شامی حکومت کے مخالف ممالک، خاص طور سے امریکہ، کے مقاصد کے حصول کی کوشش میں ہیں اور شام کے بارے میں اقوام متحدہ کی ناکامی کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ اُدھر المیادین ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیفین ڈی مسٹورا شام کے بارے میں ابھی حال ہی میں جنیوا میں ہونے والے تین ممالک ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے سہ فریقی اجلاس میں تینوں ملکوں کے درمیان ہونے والی مفاہمت کی حمایت کا اعلان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ وہ شام کے آئین کی کمیٹی کے اراکین کی فہرست میں امریکہ کی پسند کے 5 افراد کا اضافہ کرنے کی کوشش میں تھے۔
اب جنوری سنہ 2019 سے ناروے کے سفارت کار گیر او پیڈرسن ایسے حالات میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت سے کام شروع کریں گے کہ ایک طرف تو شام کے آئین کی کمیٹی کی تشکیل ان کی پہلی ترجیح ہوگی اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کردیا ہے۔