شام میں اسرائیلی فوج کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری
شام کے ذرائع ابلاغ نے منگل کی رات دارالحکومت دمشق پر صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں کے حملوں کو پسپا کرنے اور ان حملوں کا بھرپور جواب دینے کی خبر دی ہے-
شام کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ شام کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے صیہونی حکومت کے بیشتر لڑاکا طیاروں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا - شام کی نیوز ایجنسی سانا نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کی سرزمین پر یہ میزائل حملے کئے ہیں- صیہونی حکومت کے حالیہ حملوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس غاصب حکومت کی یہ بوکھلاہٹ اور پریشانی ، شام سے امریکی فوج کے نکالے جانے کے ٹرمپ کے اعلان کے بعد بڑھ گئی ہے- باوجودیکہ صیہونی حکومت نے چند روز قبل لبنان اور شام کی سرحدوں پر اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے تاہم ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ صیہونی حکومت کے اس طرح کے اقدامات زمینی حملہ انجام دینے کی کوشش نہیں ہیں بلکہ شام میں رونما ہونے والی تازہ ترین صورتحال پر صرف ایک نفسیاتی ردعمل ہے- اسرائیل نے لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام پر جو حملہ کیا ہے وہ "شمالی ڈھال" سے موسوم اسرائیلی فوج کی کاروائیوں میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے انجام دیا ہے کہ جس میں اسے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے اور عملی طور پر یہ کاروائیاں شکست سے دوچار ہوئی ہیں-
کچھ دنوں قبل اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو نے سیاسی تعطل سے نکلنے اور رائے عامہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے شمالی سرحدوں پر، "شمالی ڈھال" کے عنوان سے کاروائی کا آغاز کیا ہے کہ جسے وہ حزب اللہ لبنان کی بنائی ہوئی سرنگوں کا پتہ لگانے کا نام دے رہا ہے- لیکن نتنیاہو کے اس فریبکارانہ اقدام کو صیہونی حکومت کے اندر بھی پذیرائی نہیں ملی ہے اور نتنیاہو کے مخالفین نے ان کاروائیوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کی راہ میں نتنیاہو کا ایک سمجھا بوجھا قدم بتایا ہے- بعض افراد نے اسے "نتنیاہو ڈھال" کا بھی نام دیا ہے اور اس کو ہدف تنقید بنایا ہے- اس طرح سے "شمالی ڈھال" نامی کاروائیوں میں صیہونی حکومت کو حاصل ہونے والی شکست، عملی طور پر اس غاصب حکومت کی پوزیشن کے مزید متزلزل ہونے کا باعث بنی ہے- یہی سبب ہے کہ شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد، صیہونی وزیر اعظم نتنیاہو نے کہا ہے کہ شام میں ہماری فوجی سرگرمیوں میں اضافے کا امکان ہے- اسرائیلی حکام یہ دھمکی ایسے میں دے رہے ہیں کہ جس طرح سے امریکی فوج نے شام کی سرزمین سے فرار اختیار کیا ہے، علاقے میں صیہونی حکومت کے بھی سیاسی تانے بانے بکھرجائیں گے اور اسے شکست کا منھ دیکھنا پڑے گا- یمن کی اعلی انقلابی کمیٹی کے سربراہ محمد علی الحوثی نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو چاہئے کہ شام میں مزاحمت کے محور کے مقابلے میں اپنی شکست کا اعتراف کریں- محمد علی الحوثی نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ شام سے امریکی فوج کی پسپائی، اس مسئلے کے اثبات کے لئے کافی ہے-
شام کے تعلق سے ٹرمپ کے اچانک فیصلے سے صیہونی حکومت کے سیاسی حلقوں کو دھچکا لگا ہے اور وہ صدمے میں ہیں- یہی صدمہ وجہ بنا ہے کہ شام کے دلدل سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے کچھ ہی دنوں بعد اسرائیلی کابینہ نے اعلان کردیا کہ وہ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرائے گی- بنابرایں صیہونی حکومت کا سیاسی شیرازہ منتشر ہونے کی جو وجہ ہے، وہ غزہ میں مزاحمتی گروہوں کی دلیرانہ کاروائیاں، حزب اللہ لبنان کی جانب سے حملے کی صورت میں غاصبوں کا بھرپور جواب دینے اور ان کا ہاتھ کاٹ دینے کا اعلان، اور آخرکار شام سے امریکہ کا فرار اور صیہونی حکومت کا اس کا ساتھ چھوڑ دینا ہے- اس انتہائی اہم تبدیلی سے ثابت ہوتا ہے کہ مزاحمتی قوت، نہ صرف جنگ کے میدان میں بلکہ سیاسی میدان میں بھی سر چڑھ کے بولتی ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ میدان جنگ سے لے کر سیاسی میدان تک، دشمنوں کی شکست کی زمین ہموار کرے- اور یقینا مزاحمتی قوت ہی اس بات کا باعث بنی ہے کہ شام سمیت علاقے میں اسرائیل کو مسلسل ناکامیوں اور شکستوں کا سامنا ہے-
اگر امریکی اتحاد دہشت گردی سے مقابلے میں حقیقی کردار ادا کرتا تو آج شام اور علاقے میں ہم، مزید استحکام کا مشاہدہ کرتے لیکن شام کے بحران کو تقریبا سات سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود امریکی اتحاد کو دہشت گردی سے مقابلے کی مہم میں کوئی کامیابی نہ ملنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شام اور علاقے کو غیر مستحکم کرنے میں امریکہ اور اسرائیل کا کردار ہے۔