Dec ۳۱, ۲۰۱۸ ۱۳:۵۲ Asia/Tehran
  • بنگلادیش  کے انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی

بنگلادیش کی عوامی لیگ پارٹی پارلیمانی انتخابات جیت گئی ہے - اس پارٹی کی قیادت وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کر رہی ہیں -

عوامی لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ایک سو اکانوے نشستیں ملی ہیں جبکہ تنہا عوامی لیگ نے ایک سو اکاون نشستیں حاصل کی ہیں جو حکومت تشکیل دینے کے لئے کافی ہیں- رپورٹوں کے مطابق نیشنلسٹ پارٹی کی زیر قیادت اپوزیشن اتحاد کو بھاری شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے یہاں تک کہ اتحاد کے سربراہ کمال حسین نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے - بنگلادیش کے حکومت مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے نتائج کی توقع انھیں پہلے سے تھی - حکومت مخالف لیڈر خالدہ ضیاء اور دس ہزار سے زیادہ حکومت مخالف سیاسی رہنماؤں کی مالی بدعنوانی جیسے الزامات میں گرفتاری کو ڈھاکا حکومت کی جانب سے مخالفین کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا جا رہا ہے - اس موقف کے حامل افراد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے گذشتہ روز کرائے گئے انتخابات کے انعقاد میں نہ صرف یہ کہ غیرجانبداری کا لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ عوامی لیگ کی طرفداری کی گئی ہے جس کی وجہ سے اس جماعت کے امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار ہوئی ہے-

سیاسی امور کے ماہر فخرالدین احمد بنگلادیش کے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتخابات کے نتائج پانچ برسوں تک عوام کی زندگی پر اثرانداز ہوں گے اور ہم ملک میں امن و امان کی بحالی کی امید کرتے ہیں-

 اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں ، اصلی سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابات سے بنگلادیش میں گذشتہ دس برسوں سے جاری سیاسی بحران ختم ہو پائے گا ؟ اپوزیشن جماعتیں گذشتہ دس برسوں سے عوامی لیگ پردھاندلی کا الزام لگا کر اس کی قانونی حیثیت پر انگلی اٹھا رہی ہیں اور تاکید کرتی رہی ہیں کہ وہ شیخ حسینہ کے ساتھ تعاون نہیں کریں گی اور شیخ حسینہ واجد نے اپنی سب سے بڑی حریف خالدہ ضیاء کو جیل میں ڈال کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ زیادہ تر فوج اور ہندوستان کی حمایت پر بھروسہ کرتی ہیں اورانھیں اپنی حکومت کی قانونی حیثیت کی زیادہ پرواہ نہیں ہے- 

 بنگلادیش کے سیاسی امور کے ماہر ولی الرحمان اس ملک کے حالات کا جائرہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : حکومت پر لاکھوں بنگلادیشیوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کی سخت ذمہ داری ہے - بنگلادیش میں پینتالیس فیصد سے زیادہ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور اسے سیاسی بحران کو ختم کرنا چاہئے-

 بہرحال بنگلادیش کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ تیس دسمبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج پر بڑے پیمانے پر اعتراض سے نہ صرف اس ملک کے سیاسی بحران کے حل میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگلادیش کے مسائل جن کے حل کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے ، لاینحل ہی رہیں گے- اس بات کے پیش نظر کہ بنگلادیش کے الیکشن کمیشن نے انتخابات میں اسلام پسندوں کو شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو پارلیمنٹ عوامی لیگ کی جانب سے تشکیل ہوگی پوری طرح سیکولر ہوگی اور اس سے بنگلادیش میں سیکولر گروہوں کو تقویت ملے گی کہ جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں صحافتی اور ثقافتی سطح پر متعدد مسائل و مشکلات پیدا ہوئے تھے-

ٹیگس