خلیج فارس میں سیکورٹی تعاون پر ایران کی تاکید
علاقے کی موجودہ صورتحال سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ خلیج فارس میں اغیار کی موجودگی، بحرانوں کا وجود، اور علاقے کے بعض ملکوں میں سیاسی عدم استحکام، وہ عوامل ہیں جو علاقے میں اجتماعی سلامتی کے لئے خطرات وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کےسربراہ میجرجنرل محمد باقری نے جنوبی ایران میں واقع جزیرہ ابوموسی کی فوجی تنصیبات کا معائنہ کرتے وقت کہا ہے کہ علاقے میں امن کا وجود، صرف علاقے کے تمام ملکوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے اور اغیار کی موجودگی اس ہدف تک رسائی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے- میجرجنرل باقری نے کہا کہ خلیج فارس میں علاقے کے ممالک خطے کی سیکورٹی کو یقینی بناسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیج فارس میں امریکا کی فوجی موجودگی کا اس علاقے میں بدامنی کے سوا اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ جنرل باقری نے کہا کہ جہاں جہاں بھی امریکی فوج گئی ہے وہاں اس نے بدامنی کو ہوا دی ہے اور یقینی طورپر شام اور علاقے کے دیگر ملکوں سے امریکی فوج کا انخلا اس علاقے میں امن و استحکام کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہاکہ شام سے امریکا کی پسپائی اس ملک سے ذلت آمیز پسپائی ہے جہاں امریکا اجازت کے بغیر داخل ہوا تھا۔
امریکہ علاقے میں فوجی موجودگی اور ایرانو فوبیا میں شدت لانے کے ذریعے علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات کو کشیدہ کرنے کے درپے ہے- اسی اسٹریٹیجی کے دائرے میں امریکہ، ایران اور پڑوسی ملکوں کے درمیان باہمی تعاون اور دوستی کا مخالف ہے اور علاقے میں بدامنی کی فضا قائم کرکے مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران علاقے میں ایک خطرہ شمار ہوتا ہے - یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ علاقے میں امن قائم کرنے کے بہانے سے داخل ہوا ہے لیکن اس نے جہاں بھی قدم رکھا ہے وہاں بدامنی ہی پیدا کی ہے، اور اس کی مثال آپ شام ، عراق، افغانستان اور خلیج فارس میں دیکھ سکتے ہیں-
علاقے میں امریکہ کی موجودگی کے دو منفی اور طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں- پہلا منفی اثر تو ہتھیاروں کی دوڑ ہے- امریکی اہداف میں سب سے اہم ہدف خاص طور پر ٹرمپ کے دور میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت لانا، اور امریکہ کے ساتھ مضبوط سیکورٹی وابستگی قائم کرنے کے مقصد سے جنگی سازوسامان کو فروخت کرنا ہے- علاقے میں امریکی موجودگی کا دوسرا منفی اثر یہ ہے کہ علاقائی ملکوں کے تعلقات کو خراب کرکے علاقے کے ملکوں کو امریکہ کے سیکورٹی اہداف میں ہم فکر بنانا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ خلیج فارس کا اہم مسئلہ، اجتماعی سلامتی پر تاکید کے ساتھ ہی،علاقائی سیکورٹی کو عملی جامہ پہنانا ہے-
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم نے عبدالستار قاسم کی ایک یادداشت میں لکھا ہے: علاقے کے بعض عرب ممالک امریکہ کے اکسانے پر اور اسرائیل کے اہداف سے ہم آہنگ ہوکر ایران کو علاقے میں خطرہ بتا رہے ہیں جبکہ وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے علاقے میں بدامنی پیدا کرنے کے لئے اربوں ڈالرخرچ کئے ہیں- امریکی صدر ٹرمپ اپنی غیر منطقی پالیسیوں کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ علاقے میں قائم سیکورٹی توازن سے ایران کو حذف کرکے آبنائے ہرمز میں سیکورٹی کے تعلق سے تشویش پیدا کریں لیکن ایران ہرگز امریکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا-
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی بحری بیڑا خلیج فارس میں داخل ہوا ہے - اسپوٹنیک نیوز ایجنسی نے مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی بحری بیڑا " یو ایس ایس جان سی اسٹینس" کہ جو خلیج فارس میں داخل ہوا ہے، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد اس علاقے میں داخل ہونے والا پہلا امریکی بحری بیڑا ہے-
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ایران قریب سے اس صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور اغیار کی موجودگی پر اس کی کڑی نظر ہے۔
علاقے کو سیکورٹی فراہم کرنے میں ایران بھرپور صلاحیت و توانائی سے بہرہ مند ہے۔ ایران کی یہ صلاحیت و توانائی اور قوت و اقتدار کبھی بھی علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہا ہے- کیوں کہ ایران ایک امن پسند ملک ہے اور اس کی فوجی حکمت عملی امن پسندی پر مبنی ہے- اور میجر جنرل باقری کا بیان بھی اسی نکتے پر تائید ہے : میجر جنرل ''محمد باقری'' نے کہا کہ آبنائے ہرمز اور خلیج فارس میں قائم سلامتی، مثالی ہے اور یہ تمام کامیابیاں ایرانی مسلح افواج کی صلاحیت کی مرہون منت ہیں- انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے اعلی دفاعی آلات کے استعمال اور موثر صلاحیتوں سے خلیج فارس کی سلامتی کو یقینی بنایا گیا ہے- جنرل باقری نے اس بات پر زور دیا کہ علاقے کی سلامتی صرف یہاں کے ممالک فراہم کرسکتے ہیں جبکہ اغیار کی آمد سے کشیدگی پیدا ہوگی-