Jan ۰۹, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۳ Asia/Tehran
  • شام کے بارے میں امریکہ اور ترکی کے اختلافات میں اضافہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیر متوقع فیصلے میں 19 دسمبر 2018 کو یہ اعلان کیا کہ امریکی فورسیز کو وہ شام سے نکال رہے ہیں- انہوں نے داعش دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ اب شام میں ان کے باقی رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے-

شام کے بحران کے ایک اہم بازیگر کی حیثیت سے ٹرمپ کے اس فیصلے کا ترکی نے خیر مقدم کیا- درحقیقت مشرقی فرات میں کردوں کے خلاف، ترکی اور اس کی اتحادی فورسیز کی کاروائیوں کے بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے بار بار کاانتباہ، اور داعش کا مقابلہ جاری رکھنے کے لئے ٹرمپ کو دیا گیا اردوغان کا وعدہ،  شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کا باعث بنا- 

دو امریکی تجزیہ نگاروں جان آلٹرمین  اور ویل ٹوڈ مین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے یہ اقدام، ترکی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا ہے- آلٹرمین اور ٹوڈمین کے مطابق ، ترکی کے صدر اردوغان نے دھمکی دی ہے کہ عنقریب ہی وہ شام میں کردوں کے زیر قبضہ علاقوں پر حملہ کریں گے اور اس اقدام سے ممکن تھا کہ مشرقی فرات میں تعینات امریکیوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجاتا-

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شمالی شام میں ترکی کو بالکل کھلی چھوٹ مل جائے گی تاکہ وہ جوچاہے کرے- یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے دورہ انقرہ میں منگل کو اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ گفتگو کے بعد صراحتا خبردار کیا ہے کہ شام میں امریکہ کے کرد اتحادیوں کے خلاف، ترک فوجیوں کے کسی بھی قسم کے غلط رویے یا ان پر حملے کا امریکہ مخالف ہے- 

بولٹن نے کہا کہ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا، داعش کی مکمل شکست اور ترکی کی جانب سے شام کے کردوں کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرنے سے مربوط ہے- اس انتباہ پر ترکی کے سینئر حکام نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے پہلے سے ہم آہنگی نہ ہونے کے بہانے سے بولٹن سے ملاقات سے انکار کردیا- درحقیقت اردوغان نے اس اقدام کے ذریعے، کردوں کے تعلق سے واشنگٹن کے جانبدارانہ موقف پر اپنی ناراضگی واضح کردی ہے- 

اردوغان نے بولٹن کی جانب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں پیش کی گئی شرطوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بولٹن بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی صدر نے آشکارا طور پر، شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے سے متعلق اپنے پہلے موقف میں ہی پسپائی اختیار کرلی ہے- 

ٹرمپ نے دو جنوری کو وائٹ ہاؤس میں کہا کہ شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کے باوجود  بھی شامی کردوں کی محافظت ہوگی- اس طرح سے ایسے میں کہ جب ٹرمپ اس سے پہلے داعش پر اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے شام میں امریکی فوج کی موجودگی جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں دیکھ رہے ہیں، اس وقت اپنے ایک اور فریضے، یعنی شام میں کردوں کی حمایت جاری رہنے کی ضرورت پرتاکید کر رہے ہیں- 

واشنگٹن  گذشتہ چند برسوں کے دوران شام کے شمال اور شمال مشرق میں اپنے فوجیوں کو تعینات کرکے اور کرد ملیشیا اور ڈموکریٹک فورسیز کا ساتھ دیتے ہوئے اس بات کا مدعی تھا کہ وہ داعش کا مقابلہ کر رہا ہے- اس طرح سے ایسے میں کہ جب ترکی وائی پی جی کو دہشت گرد گروہ کہہ رہا ہے، امریکہ کرد ملیشیا کو داعش کے ساتھ جنگ میں اپنا اتحادی شمار کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے  شام سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان، واشنگٹن کے کرد اتحادیوں کے لئے ایک جھٹکا ہے-

چنانچہ واشنگٹن کے کرد اتحادی اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ ترکی کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے مشرقی فرات کے علاقوں میں شامی فوج سے مدد مانگیں تاکہ وہ شہر منبج اور اس کے اطراف کے کرد نشیں علاقوں میں تعینات ہو اور ان کردوں کی حفاظت کرے- نیویارک ٹائمز نے انیس دسمبر کے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی، اس جنگ میں جس کی ہار ہوگی وہ کرد ملیشا ہوگی-

اس وقت جان بولٹن نے اپنے دورہ ترکی کے موقع پر کردوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد آمیز اقدام پر، ترکی کے اعلی حکام کو جو واضح انتباہ دیا ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن علاقے میں اپنے اتحادیوں کو اپنے وعدے کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہے- جبکہ یہ مسئلہ واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان اختلافات میں اضافے کا باعث بنے گا-

ٹیگس