امریکی وزیر خارجہ پھر خالی ہاتھ واپس
امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو کا آٹھ جنوری سے شروع ہونے والا مشرق وسطی کا دورہ ، عمان کے دورے کے بعد اچانک ختم ہوگیا- امریکی وزیرخارجہ عمان کے بعد کویت کا دورہ کرنے والے تھے تاہم انھوں نے ایک تشییع جنازہ میں شرکت کے بہانے اپنا دورہ کویت منسوخ کر دیا-
امریکی وزیرخارجہ کے دورے کے مختلف اہداف تھے تاہم دو سب سے اہم مقاصد تھے ایک اپنے اتحادیوں کو واشنگٹن کی موجودہ پالیسیاں جاری رکھنے کی یقین دہانی کرانا تھا اور دوسرے ایران کی پالیسیوں اور اس کے علاقائی اثر و نفوذ کو خطرہ بتا کر ایرانوفوبیا کوہوا دینا تھا-
اس کے ساتھ ہی پمپئو نے اپنے اس دورے میں قطر کے ساتھ سعودی عرب و امارات کے شدید اختلافات کو ختم کرانا تھا تاہم ان کی کوششیں بظاہر ناکام رہی ہیں-
امریکی وزیرخارجہ نے دورے کا پہلا مقصد حاصل کرنے کے لئے خاص طور سے شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علاقے میں واشنگٹن کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آنے پر تاکید کی-
امریکی وزیرخارجہ کی نظر میں مشرق وسطی میں امریکی پالیسیاں بقول ان کے ایران کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے پر مبنی ہیں اور واشنگٹن ، مشرق وسطی میں استحکام برقرار رکھنے اور بغیر کسی تبدیلی کے اسرائیل کی حفاظت کے عہد کا پابند رہے گا-
علاقے میں امریکہ کی موجودگی کا سلسلہ جاری رکھنے پر پمپئو کی تاکید سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ واشنگٹن کے اتحادی کس حد تک علاقے میں امریکی موجودگی کے معاہدے کے سلسلے میں تشویش میں مبتلاء ہیں - جسے اپنے جھوٹے وعدوں سے دور کرنے کی امریکی وزیرخارجہ نے بھرپور کوشش کی-
پمپئو کے مشرق وسطی کے علاقے کے دورے کا دوسرا مقصد علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران پر عائد پابندیوں اور تہران پر عدم استحکام پیدا کرنے کے جھوٹے الزام پر تبادلہ خیال کرنا تھا- تاہم ان کے اس ہدف کا پورا ہونا بہت بعید نظر آتا ہے خاص طور سے ایسی حالت میں کہ واشنگٹن کی نگاہ میں ایران کے علاقائی اثر و نفوذ کو کم کرنے کا ایک اہم پہلو شام سے ایران اور اس کے اتحادیوں کو باہر نکالنا ہے-
امریکہ خود اس مقصد کو حاصل کرنے کی راہ میں موجودہ مشکلات سے باخبر ہے اور ایران کے اثرونفوذ کا مقابلہ کرنے کے منصوبے کی کامیابی کو آسان نہیں سمجھتا-
اس سلسلے میں بارہ جنوری کو واشنگٹن فری بیکن نامی جریدے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے شام سے تمام ایرانی فوجیوں کو باہر کرنے کی واشنگٹن کی کوشش کے دعوے کو ایک اونچی اڑان سے تعبیر کیا-
اس کے باوجود پمپئو نے ایرانوفوبیا کو ہوا دے کر عرب نیٹو کی تشکیل کی زمین ہموار کرنے اور اپنے عرب اتحادی ممالک کو ایران کا مقابلہ کرنے کا خرچ دینے پر تیار کرنے کی کوشش کی تاہم عرب ممالک کے درمیان اختلافات عرب نیٹو کی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شمار ہوتی ہے-
اس کے ساتھ ہی پمپئو نے مشرق وسطی میں اپنے اتحادی ملکوں کا دورہ کر کے ان ملکوں کے اعلی حکام کو پولینڈ میں ہونے والی ایران مخالف کانفرنس میں شرکت کرنے پر راضی کرنے کی بھی کوشش کی تاکہ بزعم خود ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایک عالمی محاذ تشکیل دے سکیں- پولینڈ میں ایران مخالف کانفرنس تیرہ اور چودہ فروری کو منعقد ہوگی- اس کا مقصد ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنا ہے-امریکی وزیرخارجہ پمپئو نے اس کانفرنس کا مقصد ایران کے علاقائی اثرو نفوذ کو روکنے پر تاکید کرتے ہوئے مشرق وسطی میں استحکام و آزادی کو فروغ دینا بتایا ہے تاہم اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان اختلافات زیادہ ہیں اور یہ بعید نظر آتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کا امریکی مطالبہ پورا کرسکیں گے-
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے پولینڈ میں ایران مخالف کانفرنس کے اعلان پر اپنے ردعمل میں میزبان ملک اور کانفرنس کے شرکاء کو یاد دہانی کرائی کہ جن لوگوں نے ایران مخالف تازہ ترین امریکی ڈرامے میں حصہ لیا تھا وہ یا مرچکے ہیں یا ذلیل ہوچکے ہیں اور حاشیے پر ڈال دیئے گئے ہیں جبکہ ایران ، اس وقت ہمیشہ سے زیادہ مضبوط ہے-
ٹرمپ حکومت کی جانب سے علاقے میں ایران کے اثر و نفوذ کو منفی ظاہر کرنے کی کوششوں کے باوجود اس وقت واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی مشرق وسطی میں ایران کے کردار کی اہمیت کا اعتراف کررہے ہیں-