وارسا کانفرنس کی کامیابی پر، پولینڈ کے وزیر خارجہ کے شکوک و شبہات
امریکہ تیرہ اور چودہ فروری کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں، نام نہاد مشرق وسطی امن و صلح کے عنوان سے، ایران مخالف ایک کانفرنس کا انعقاد کرانا چاہتا ہے-
باوجودیکہ واشنگٹن نے دسیوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی اس ایران مخالف کانفرنس میں شرکت کی خبر دی ہے تاہم گذشتہ دنوں میں بہت سی حکومتوں نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے- اسی سلسلے میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ وارسا اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی۔فیڈریکا موگرینی نے پیر کے روز برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ وہ وارسا اجلاس میں شرکت کرنے کے بجائے ایڈس ابابا میں افریقی یونین کے اجلاس میں شرکت کریں گی۔
روس اس وقت شام اور مشرق وسطی کے علاقے کا ایک اہم سیاسی کھلاڑی شمار ہوتا ہے اور فطری سی بات ہے کہ اس کانفرنس میں روس کی شرکت کے بغیر، امریکی حکام منجملہ مائیک پامپئو ، ایران کے علاقائی اثر و رسوخ اور پالیسیوں سے مقابلے سمیت، وارسا کانفرنس میں زیر بحث آنے والے مسائل کے بارے میں عالمی اجماع کا دعوی نہیں کرسکتے ہیں- یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس کا اعتراف ، امریکہ کی میزبانی میں کانفرنس کا انعقاد کرنے والی پولینڈ حکومت نے بھی کیا ہے- اسی سلسلے میں پولینڈ کے وزیر خارجہ "یاتسک چاپوتوویچ" Jacek Czaputowicz نے وارسا کانفرنس میں روس کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کی موجودگی کے بغیر اس کانفرنس کی کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی- چاپوتوویچ کے بقول روس، مشرق وسطی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور وارسا کانفرنس میں، جو فروری میں منعقد ہونا طے پائی ہے، ماسکو کی شرکت کے بغیر کسی سمجھوتے کے حصول کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس لئے امکان ہے کہ اس کانفرنس میں صرف امریکی وزیرخارجہ مائیک پامپئو اور میری شرکت سے ہی کوئی بیان جاری کیا جائے-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے اصلی اتحادی کی حیثیت سے مشرقی یورپ اور یورپی یونین میں پولینڈ جیسا ملک کہ جس نے ہمیشہ واشنگٹن کے ایران مخالف مواقف کی حمایت کی ہے اس وقت بھی واشنگٹن کی مشرق وسطی کی پالیسی کے دائرے میں امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے- اسی سلسلے میں پولینڈ کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ یورپی یونین مشرق وسطی کے تعلق سے امریکی منصوبے کی مخالفت نہیں کرسکتی- یہ ایسے میں ہے کہ ایران کے دورے پر آئے ہوئے پولینڈ کے نائب وزیرخارجہ کے ساتھ ملاقات میں ایران کے وزیرخارجہ کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ''سید عباس عراقچی'' نے کہا ہے کہ کسی کو خطے کے اندر یا باہر ایرانی مفادات کے خلاف اتحاد بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی- یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولینڈ کے نائب وزیرخارجہ نے ایسے وقت میں ایران کا دورہ کیا ہے کہ جب پولینڈ اور امریکہ کی جانب سے ایران مخالف اجلاس کی مشترکہ میزبانی کرنے سے متعلق حکومت ایران نے گزشتہ دنوں پولیش حکومت سے شدید احتجاج کیا تھا- اس ملاقات میں” پرز میسلاو لانگ " نے ایران پولینڈ دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کو مشرق وسطی کا اہم ملک سمجھتے ہیں لہذا پولینڈ، دوست ملک کی حیثیت سے ایران کے خلاف کسی بھی اقدام کی ہرگز اجازت نہیں دے گا-
دوسری جانب روس نے، ایران مخالف وارسا کانفرنس میں شرکت کے لئے امریکی دعوت کو مسترد کردیاہے- روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ ماسکو کو وارسا کانفرنس میں شرکت کا سرکاری دعوتنامہ موصول ہوا ہے تاہم اسے ، اس قسم کی کانفرنس کے انعقاد سے علاقے کے مسائل کے حل میں کوئی مدد ملنے کے تعلق سے شکوک و شبہات لاحق ہیں- روس کے نقطہ نگاہ سے اس وقت واشنگٹن اور تل ابیب کا مقصد یہ ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے کہ جو ایران مخالف ماہیت کی حامل ہے، ایران کے خلاف شدید ترین پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ہی، نرم طاقت یعنی تشہیراتی و سیاسی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کردے - اس وقت امریکہ کا اصل مقصد ایران کو شام سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے کہ جس کے بارے میں پہلے بھی امریکہ کے بعض سینئر حکام مثلا قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن بھی اظہار خیال کرچکے ہیں-
شام کے بحران اور داخلی جنگ میں ایران کا فیصلہ کن کردار ہی، مغربی حکومتوں اور ان کے عرب اتحادیوں نیز اسرائیل کے آگ بگولہ ہونے کاسبب بنا ہے- شام سے ایران کے نکل جانے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کی سیاسی و تشہیراتی جنگ کے باوجود ، ان کی یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔ مغربی ممالک اور اسرائیل بہت زیادہ کوششیں انجام دے رہے ہیں تاکہ نفسیاتی جنگ اور سیاسی تبادلۂ خیال کے ذریعے، شام میں ایران کی موجودگی کے بارے میں روس کے موقف پر اثرانداز ہوجائیں اور ماسکو کو اپنے موقف سے ہم آہنگ بنالیں۔ اس کے باوجود روس نے بارہا شام میں اور خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کے انتہائی اہم اور مثبت کردار کو سراہا ہے- اس وقت ایران مخالف وارسا کانفرنس میں شرکت سے ماسکو کا انکار، اس کانفرنس کی حیثیت اور اس کے نتائج پر ایک اور کاری ضرب ہوگی