دہشت گردی کے حامیوں کی فہرست میں سعودی عرب کا نام بھی شامل
سعودی عرب نے وہابیت کے مرکز کی حیثیت سے گذشتہ برسوں کے دوران دہشت گردی کی ہمہ جانبہ حمایت اور خاص طور پر مشرق وسطی اور دنیا کے دیگر علاقوں میں تکفیری دہشت گردوں کی بھرپور حمایت میں اہم اور موثر رول ادا کیا ہے-
درحقیقت سعودی عرب ، کہ جس کے یورپ کے بعض بڑے ملکوں جیسے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی و اقتصادی اور فوجی تعلقات قائم ہیں، انتہا پسندانہ نظریات کے حامل گروہوں منجملہ داعش دہشت گرد گروہ کا سرچشمہ شمار ہوتا ہے کہ جو دنیا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دے رہا ہے- جرمنی کی پارلیمنٹ میں بائیں بازو کے دھڑے کی لیڈر سارا واگن کنشت "Sahra Wagenknecht ، داعش کے دہشت گردانہ اقدامات میں توسیع کی وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دہشت گردی، مشرق وسطی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں کا نتیجہ ہے-
خیال رہے کہ ستمبر دو ہزار سولہ میں امریکی کانگریس نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور صدارات کے آخری ایام میں (جاسٹا) نامی ایک متنازع قانون کی منظوری دی تھی۔ صدر باراک اوباما اور امریکی انتظامیہ نے ’جاسٹا‘ کو مسترد کردیا تھا تاہم کانگریس نے’ویٹو‘ کا استعمال کرتے ہوئے جاسٹا کی منظوری دے دی تھی۔ اس متنازع قانون کے تحت دہشت گردی سے متاثرہ شہری کسی بھی ملک کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرسکتے ہیں- جاسٹا قانون کی منظوری کے ذریعے امریکی کانگریس نے دہشت گردی کی حمایت میں سعودی حکومت کے ناقابل انکار کردار کی تائید و تصدیق کردی اور یہ واضح ہوگیا کہ نائن الیون کے واقعے میں سعودی عرب نے حملہ آوروں کی مختلف طریقوں سے مدد کی تھی اور ان کو اس حملے کے لئے سہولیات فراہم کی تھیں خاص طور پر ایسے میں کہ اس واقعے میں بعض سعودی شہزادوں اور حکام کا بھی ملوث ہونا واضح ہے-
گذشتہ برسوں کے دوران انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے حملوں کا یورپی ملکوں کو بھی سامنا رہا ہے تاہم ان ملکوں نے دیر سے سہی، اب اس مسئلے پر ردعمل ظاہر کیا ہے- اسی سلسلے میں یورپی کمیشن نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب ان ملکوں میں شامل ہے کہ جس نے دہشت گردوں کے لئے مالی مدد اور منی لانڈرنگ کے خلاف مہم میں کھلے طورپر کوتاہی سے کام لیا ہے اور وہ دہشت گردوں کی حمایت میں ملوث ہیں، اور دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے کے سبب یورپی یونین کے خلاف خطرہ شمار ہوتے ہیں- یورپی یونین نے یہ اقدام ایسی حالت میں کیا ہے کہ سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد ریاض کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بڑھ گیا ہے- خاشقجی، دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانےمیں داخل ہوئے تھے اور پھر وہ وہاں سے ہرگز خارج نہیں ہوئے- سعودی حکومت نے انیس اکتوبر کو اٹھارہ دن کی خاموشی اور اس واقعے کی تکذیب کرنے کے بعد آخرکار عالمی برادری کے دباؤ میں آکر اس بات کی تصدیق کی کہ اسی قونصل میں خاشقجی کو قتل کردیا گیا ہے- اس وقت یورپی یونین کی اس فہرست میں سولہ ممالک شامل ہیں-
بریسلز حکومت اب تک ایف اے ٹی ایف سے مشابہ معیارات کی بنیاد پر، چند ملکوں کو اس فہرست میں شامل کرچکی ہے اور سعودی عرب بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جس کا نام اب یورپی یونین کی اس فہرست میں شامل ہوا ہے۔ یورپی یونین کا یہ ابتدائی فیصلہ ہے اور آئندہ پیر کو، یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے اجلاس میں اس فیصلے کی باضابطہ طور پر توثیق کی جائے گی- یورپی یونین کا یہ اقدام سعودی عرب کے ساتھ، مالی روابط میں خلل واقع ہونے کا باعث بنے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہو- یورپی یونین کے رکن ملکوں کو گذشتہ چند برسوں کے دوران، تکفیری دہشت گردی سے کہ جس کا اصلی حامی سعودی عرب ہے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے-
انٹرپول کے سیکریٹری جنرل جرگن اسٹوک نے دسمبر 2018 کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں کو داعشیوں کی دہشت گردی کی ایک اور لہر کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور ہم اس دوسری لہر کو داعش دو کا نام دے سکتے ہیں- سعودی عرب ، مغربی ملکوں کا اہم علاقائی اتحادی ہے کہ جو یورپ اور امریکہ کے ہتھیاروں کا اصلی خریدار ہے اور ساتھ ہی اس نے مغربی بلاک میں تیل کی برآمدات اور سرمایہ کاری میں اہم رول ادا کیا ہے- ظاہرسی بات ہے کہ مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے باعث، کبھی بھی سعودی حکومت کے توسط سے انجام پانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور یمن کی ظالمانہ جنگ میں اس ملک کے نہتے عوام کے خلاف سعودی عرب کی پالیسیوں اور اقدامات پر ٹھوس تنقید نہیں کی ہے، اور بنیادی طور پر اس مسئلے سے بے توجہی برتی ہے-