مالی ٹرانزکشن پر عملدرآمد کے بارے میں تین یورپی ملکوں کے وعدوں کی تکرار
ایٹمی معاہدہ، عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے سلسلے میں بہت اہم معاہدہ شمار ہوتا ہے لیکن مئی 2018 میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا نکل جانا، ایک ایسی منفی تبدیلی تھی کہ جو اس معاہدے کو نابود کرنے کے لئے انجام دی گئی-
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد یورپی ملکوں نے یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ ایران کے اقتصادی مفادات کی ضمانت کے ساتھ ہی، اس معاہدے کی حفاظت کریں گے- یورپی یونین نے چند مہینے قبل اعلان کیا تھا وہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایس پی وی کے نام سے ایک نیا مالیاتی نظام قائم کرے گی تاکہ ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاملات کو انجام دے سکے ، تاہم بریسلز بدستور اپنے غیر عملی وعدوں کی تکرار کر رہا ہے-
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک خاص طور سے جرمنی ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھنے میں دلچسپی ظاہر کئے جانے کے بعد ایران اور یورپی یونین کے درمیان مالی ٹرانزکشن کا خصوصی نظام قائم کئے جانے کا موضوع زیربحث آیا - توقع تھی کہ اس میکانیزم پر عملدرآمد، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے، گذشتہ سال نومبر کے مہینے تک شروع ہوجائے گا لیکن یورپی یونین اب تک اس طریقہ کار پر عمل درآمد نہیں کرسکی ہے-
اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپی یونین نے اپنا خصوصی مالی نظام قائم کرنے میں کمزوری کیوں دکھائی ؟ کیا وہ واقعی امریکی پابندیوں سے خوف زدہ ہے ؟ ایس پی وی ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ یورپی یونین کا تجارتی تعاون جاری رکھا جا سکتا ہے- یورپی یونین کے مالی سسٹم ایس پی وی کا ہدف سوئیفٹ سسٹم کا متبادل تیار کرکے باہمی تجارت و لین دین سے ڈالر کو حذف کرنا ہے تاکہ یورپی کمپنیاں بین الاقوامی مالی سسٹم سے استفادہ کئے بغیر ایران کے ساتھ تجارت کرسکیں اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے انھیں سنگین سزا کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے لیکن اب تک کسی بھی ملک نے ایس پی وی کی میزبانی کے لئے آمادگی ظاہر نہیں کی ہے- امریکہ کے ساتھ یورپ کی اقتصادی وابستگی کے پیش نظر بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی مانند یورپ بھی ایران کے ساتھ علاقائی و میزائلی مسائل کے بارے میں چندجانبہ مذاکرات کا خواہاں ہے یعنی ایک طرح سے امریکہ کے ہی اہداف پر کاربند ہے-
یورپی ملکوں کی جانب سے ایس پی وی پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے کام لینے پر ایران کے حکام نے ان ملکوں کو خبردار کیا ہے۔ چنانچہ ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے یورپ کی جانب سے قائم کیے جانے والے خصوصی مالیاتی نظام ایس پی وی کے بارے میں کہا کہ یورپ کو دیر ہونے سے پہلے پہلے اس نظام پر عملدرآمد شروع کر دینا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یورپی ممالک نے اپنے وعدوں پر عملدرآمد میں غیر ضروری تاخیر کی تو اس کے نتائج خود یورپ کے لیے خوش آئند نہیں ہوں گے۔
اس ٹھوس انتباہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایران یورپی ملکوں کے غیر یقینی اور غیر عملی وعدوں کا منتظر نہیں رہ سکتا اور ایس پی وی پر عملدر آمد کے سلسلے میں تہران کے صبر کی بھی ایک حد ہے- تہران نے بارہا اس مسئلے پر تاکید کی ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے دوبارہ عائد کئے جانے کے منفی اثرات میں کمی لانے کے لئے، فور پلس ون کے اراکین کی جانب سے ٹھوس اور موثر کوششیں بروئے کار لائے جانے کی ضرورت ہے- اور اگر یہ ممالک اس سلسلے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو پھر ایٹمی معاہدے میں ایران کے باقی رہنے اور ایٹمی معاہدے سے متعلق وعدوں کو پورا کرنا، منطقی عمل نہیں ہے اور اس سے ایران کے مفادات کی تکمیل نہیں ہوگی-
یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا کہ یورپی ممالک اس سلسلے میں کچھ اقدامات انجام دیں- چنانچہ پیر کے روز جرمنی ، فرانس اور برطانیہ نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کے ساتھ بریسلز میں مشترکہ اجلاس تشکیل دیا - اس اجلاس کے بعد جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس نے کہا کہ ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے لئے جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان، یورپ کے مالیاتی نظام ایس پی وی کے بارے میں تبادلۂ خیال جاری رہا اور اس پر جلد ہی عملدرآمد شروع ہوجائے گا- انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی نے گذشہ چند مہینوں کے دوران ، برطانیہ اور فرانس اور دیگر یورپی اتحادیوں کے ساتھ نمایاں طور پر تعاون کیا ہے تاکہ ایس پی وی کو حتمی شکل دے سکیں- یورپی یونین نے بھی دعوی کیا ہے کہ اس مالیاتی نظام کو قائم کرنے کا مقصد ایران کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کو کنارے لگانا اور تہران کے ساتھ تجارتی سہولیات کی زمین فراہم کرنا ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی ممالک ایران کے خلاف غیر ایٹمی مسائل منجملہ ایران کے میزائل پروگرام میں توسیع اور یورپ میں دہشت گردانہ اقدامات کو بہانہ بناکر، نئی پابندیاں عائد کرنے کے درپے ہیں- لیکن یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے ایٹمی معاہدے کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچانے کے لئے ان پابندیوں کے نفاذ کو، ایس پی وی کے رجسٹریشن کے بعد تک ملتوی کردیا ہے-
اگر چہ یورپی یونین نے ایران کے خلاف میزائل پروگرام کی توسیع اور دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاکر عملی طور پر امریکہ کی جگہ لے لی ہے تاہم بریسلز کو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی چاہئے کہ عالمی امن و سلامتی کا تحفظ منجملہ یورپ کی سلامتی، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد سے مربوط ہے اور اسی لئے اگر واقعی میں یورپی ممالک اس اہم بین الاقوامی معاہدے کا تحفظ چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ ایس پی وی سمیت اپنے مدنظر تدابیر پر عملدرآمد کے بارے میں، ٹھوس اور دقیق نظام الاوقات کے تعین کے ساتھ اقدامات عمل میں لائیں-