مشرق وسطی میں عرب لیگ کو درپیش مسائل اور اس کا ناکارہ پن
عرب لیگ کا تیسواں اجلاس آج تیونس میں ایسے عالم میں منعقد ہوا ہے کہ مشرق وسطی کے مسائل ہر موضوع سے زیادہ الجھے ہیں اور ایک بار پھر اس کے ناکارہ پن کے ثبوت فراہم ہو سکتے ہیں -
اگرچہ عرب لیگ کو اپنے اراکین کے درمیان کشمکش کا بھی سامنا ہے تاہم سب سے زیادہ الجھن کا سبب مشرق وسطی میں درپیش چیلنج ہیں- تیونس میں منعقدہ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کو مشرق وسطی میں تین اہم چیلنجوں کا سامنا ہے-
عرب لیگ میں شام کی واپسی ، وہ پہلا چیلنج ہے جس میں وہ کئی مہینوں سے الجھی ہوئی ہے - عرب لیگ میں شام کی رکنیت نومبر دوہزارگیارہ سے معلق ہے لیکن بحران شام کو آٹھ سال کا عرصہ گذرنے اور ملکی حالات میں دمشق حکومت کے اصولی موقف کی برتری ثابت ہونے سے ایک بار پھر عرب لیگ میں اس کی واپسی زیربحث آگئی اور اس سلسلے میں کوششیں بھی انجام پائیں تاہم عرب لیگ میں شام کی واپسی کو اس کی خارجہ پالیسی خاص طور سے ایران کے سلسلے میں اس کے موقف پر نظرثانی کرنے سے مشروط کئے جانے کے باعث تیونس اجلاس بھی شام کی موجودگی کے بغیر ہی منعقد ہوا- قطری اخبار العربی الجدید نے جنوری دوہزارانیس میں لکھا ہے کہ سعودی عرب نے عرب لیگ میں شام کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ حکومت دمشق شام میں ایران کا اثر و نفوذ ختم کرنے کی ضمانت دے- دمشق نے اس شرط کو اپنے داخلی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا- بنا برایں عرب لیگ کا آج کا اجلاس ایسے عالم میں منعقد ہوا ہے کہ عرب لیگ کے اراکین جو سعودی عرب کی پالیسیوں کے زیراثر ہیں عالم عرب کے مسائل کے سلسلے میں آزادانہ موقف اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے-
دنیائے عرب کے ساتھ ٹرمپ اور صیہونی حکومت کا رویہ بھی عرب لیگ کو درپیش ایک چیلنج ہے- ٹرمپ اور نیتن یاہو کی نگاہیں عرب سرزمینوں پر لگی ہوئی ہے - ٹرمپ نے گذشتہ برس مقبوضہ بیت المقدس کو بھی صیہونی حکومت کو بخش دیا- عرب لیگ نے ٹرمپ کے اس خطرناک اور غیرقانونی فیصلے کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس تک طلب نہیں کیا- اس وقت تیونس اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب توقع ہے کہ عرب لیگ ایک بار پھر ٹرمپ کے سلسلے میں صرف ایک بیان جاری کرنے پر ہی اکتفا کرے گی اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لئے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کرے گی- عرب لیگ کی یہ پسپائی اور ساتھ ہی بعض اراکین کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلوں کی ذیلی حمایت نے عرب لیگ کے افادیت اور اس کے فلسفہ وجود پر ہی سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں-
عرب لیگ کو مشرق وسطی میں جس تیسرے چیلنج کا سامنا ہے وہ اس یونین کے اراکین خاص طور سے قطر اور عرب لیگ کے چار دیگرممالک یعنی سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر کے ساتھ وہ کشیدگی ہے جو پانچ جون دوہزارسترہ سے سعودی عرب کی جانب سے قطر کو نیچا دکھانے اور کمتر سمجھنے کی بنا پر شروع ہوئی اور بدستور جاری ہے- امیر قطر شیخ تمیم اور سعودی بادشاہ ملک سلمان تیونس اجلاس میں موجود ہیں اور گذشتہ دوبرس میں شاید پہلی بار دونوں ملکوں کے سربراہوں کے ایک دوسرے کے روبرو ہونے کا امکان فراہم ہو اگر ملک سلمان اور شیخ تمیم کی ملاقات کے لئے انجام پانے والی ثالثی نتیجہ خیز ثابت ہوگئی اور دونوں کی ملاقات انجام پا گئی تو یہ تیونس اجلاس کی بڑی کامیابی ہوسکتی ہے لیکن سعودی عرب کے بادشاہ اور قطر کے امیر کے درمیان ملاقات ہونا اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا بعید نظر آتا ہے اوراس صورت میں عرب لیگ کے ناکارہ پن اور تیونس اجلاس کی ناکامی کا سائیکل مکمل ہوجائے گا-