شام کے بحران کے حل کے لئے مشترکہ کوششوں پر پوتین کی تاکید
شام کا بحران اور اس ملک کی داخلی جنگ کہ جو دو ہزار گیارہ سے اس عرب ملک میں بدامنی پھیلنے کے ساتھ ہی شروع ہوئی، اس بات باعث بنی کہ شام کا علاقہ، مغرب اور ان کے عرب اتحادیوں کے خلاف، روس، ترکی اور مزاحمتی طاقتوں کی مقابلہ آرائی میں تبدیل ہوجائے-
شام کی قانونی حکومت کو سرنگوں کرنے کے مقصد سے مغربی اور عرب اتحاد نے دہشت گردوں کی وسیع پیمانے پر حمایت کی اس کے باوجود ، ایران اور حزب اللہ لبنان کی موثر موجودگی، اور ستمبر 2015 سے روس کی موجودگی، شام اور اس کے اتحادیوں کی پے در پے کامیابیوں اور شام کے بہت سے علاقوں کی آزادی پر منتج ہوئی- شام میں طاقت کا توازان شام کی حکومت کے حق میں تبدیل ہونے اور مغربی و عرب اتحاد کی شکست کے ساتھ ہی، ترکی نے بھی اپنا موقف تبدیل کردیا اور ایران ، روس اور ترکی پر مشتمل سہ فریقی گروپ کی شرکت سے انجام پانے والے آستانہ اجلاسوں کے دائرے میں ترکی نے کوشش کی کہ اس دائرے میں شام میں اپنے مفادات کو بیان کرے-
اس وقت یہ سہ فریقی گروپ ، شام کے بحران کے سیاسی حل کے محور میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسی سلسلے میں روسی صدر ولادیمیر پوتین نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ روس، ترکی اور ایران ، شام کے بحران کے حل کے لئے آستانہ مذاکرات کےعمل کے دائرے میں اپنی کوششیں جاری رکھیں گے- پوتین نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ تمام دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لئے کہ جو علاقے کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں، بنیادی راہ حل تلاش کریں- آستانہ مذاکرات کا عمل جنوری 2017 سے ایران کی جدت عمل، اور روس اور ترکی کے تعاون سے شام میں امن کی برقراری کے مقصد سے شروع کیا گیا، جس کے نتیجے میں شام میں محفوظ علاقے قائم کئے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی باقیماندہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے+ اپنی توجہ شام کے صوبے ادلب پر مرکوز کرنے اور ان کے اشتعال انگیز اقدامات نے، اس علاقے میں جنگ بندی کی صورتحال جاری رہنے کو بہت زیادہ خطرات سے دوچار کردیا ہے- اسی سبب سے پوتین نے اس مسئلے پر تاکید کی ہے کہ روس اپنی تمام تر کوششیں ادلب میں کشیدگی کم کرنے اور اس علاقے میں جنگ بندی کی خلاف ورزی بند کرنے کے لئے بروئے کار لائے گا- ماسکو نے بارہا کہا ہے کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ، شام کے بحران کے سیاسی حل میں اصلی رکاوٹ ہیں- روس کے وزیر دفاع سرگئی شویگو نے شام کے اپنے حالیہ دورے میں بعض مغربی ملکوں پر شام کے بحران کے خاتمے کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روس شام میں امن و استحکام کی بحالی اور اس ملک کے اقتدار اعلی کی حفاظت کے لئے، جنگ میں شام کی فوج اور عوام کی حمایت کرتا رہے گا -
شام کی حکومت اور اس ملک کے اعلی حکام نے بھی بارہا شام میں بحران پیدا کرنے میں مغرب کے منفی کردار اور خاص طور پر شام میں کشیدگی اور جھڑپیں جاری رکھنے کی امریکی پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے- در حقیقت امریکہ، مغربی اور عرب ملکوں کے سرغنہ کی حیثیت سے شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہا ہے-
روس نے ستمبر دوہزار پندرہ سے اپنی بحری اور فضائیہ کی فوجی یونٹیں شام روانہ کیں اور شام کی حکومت اور عوام کی حمایت میں دہشت گردی کے خلاف مقابلہ کیا - روس نے ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر آستانہ مذاکرات کے عمل کے توسط سے، شام کے بحران کے سیاسی حل کی ترقی و پیشرفت کا آغاز کیا اور اسے دوام بخشا ہے- سعودی عرب ، دہشت گرد گروہوں کے اصلی حامی اور سرپرست کی حیثیت سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ سیاسی اقدامات کے ذریعے شام میں روس کی فوجی موجودگی اور ایران کے مشاورتی کردار کو متاثر کرے اور سیاسی ماحول کو دہشت گردوں کے مفاد میں تبدیل کردے-
شام میں ایران، روس اور حزب اللہ کا کردار ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقی روش کے ساتھ معنی خیز رابطے کا حامل ہے- شام میں حزب اللہ اور روس کے اتحاد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی راہ میں قدم اٹھایا ہے اور وہ ایسے قاتلوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو سعودی عرب کے پیٹرو ڈالر سے شام میں انسانیت کے خلاف جرائم انجام دے رہے ہیں-
شام میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا کردار، استقامت کے بلاک سے بالکل مختلف ہے- دہشت گردوں کے آپشن پر توجہ دیئے بغیر اس بات کو یکجا نہیں کیا جا سکتا کہ ایک طرف سعودی عرب اور بشار اسد حکومت کے دیگر مخالفین کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت کی جائے اور دوسری جانب شام کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا دعوی کیا جائے -
روسی، دمشق کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود، شام میں ایران کے حساس اور بنیادی کردار سے بخوبی آگاہ ہیں، اسی بنا پر ان کو معلوم ہے کہ شام کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ ایران کے اتفاق رائے سے ہی انجام پائے گا-