وینیزویلا: امریکی پابندیوں کے مہلک نتائج
امریکہ نے باراک اوباما کے دورِ صدارت میں وینیزویلا کے خلاف پابندیوں کا آغاز کیا تھا جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں شدت پیدا ہوئی۔
وینیزویلا پر عائد پابندیوں کے، جن میں تیل پر بابندی بھی شامل ہے، لاطینی امریکہ کے تیل سے مالا مال اِس ملک کے عوام پر المناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے ممتاز ماہرِ اقتصادیات جیفری ساکس نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دو سال سے بھی کم مدت میں وینیزویلا کے 40 ہزار افراد امریکہ کی غیر قانونی پابندیوں کے نتیجہ میں، جو وینیزویلا کی حکومت کو بدلنے کے مقصد سے لگائی گئی ہیں، ہلاک ہوچکے ہیں۔
سیاسی و اقتصادی تحقیقاتی مرکز کے ذریعہ جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ”امریکی پابندیوں نے حکومت کی تبدیلی کے مقصد سے وینیزویلا کے اقتصاد کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ پالیسی ظالمانہ اور ناکام پالیسی ہے جو وینیزویلا کے عوام کے لئے بہت سخت نتائج کا سبب بنے گی۔ اگست سنہ 2017ع سے اب تک ٹرمپ حکومت کی وسیع اقتصادی پابندیوں کے نتائج میں وینیزویلا کے 40 ہزار افراد کی ہلاکت بھی شامل ہے۔“
امریکہ نے ٹرمپ کے دورِ صدارت میں خارجہ پالیسی کے شعبہ میں وینیزویلا کی حکومت کے سقوط اور قانونی صدر نکولس مادورو کو ہٹانے کے لئے طاقت کے استعمال کی بنیاد پر متعدد اقدامات انجام دیئے ہیں۔امریکہ اِس وقت وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو اور حکومت کے خلاف اقتصادی حربے استعمال کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت کے استعمال کی بھی دھمکی دے رہا ہے۔ امریکہ کے نائب صدر مائک پینس Mike Pence نے بھی وینیزویلا کے خلاف دباؤ میں اضافہ کئے جانے کی بات کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ وینیزویلا کی تیل کمپنی پر پابندی کے بارے میں اپنے موقف پر قائم ہے کہا کہ ”ہم وینیزویلا کی تیل کی صنعت اور وینیزویلا کے حامی ممالک پر دباؤ کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔“ مائک پینس کا اشارہ وینیزویلا کے خلاف پابندیوں کے دائرہ میں وسعت اور نکولس مادورو کے اصل حامی کی حیثیت سے روس کے خلاف پابندیاں لگانے کی دھمکی کی طرف ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ ان کا ملک نکولس مادورو حکومت کے خلاف ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے گا تاکہ مادورو اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ابھی تک خود کو عالمی تھانیدار سمجھتا ہے جس کا فریضہ واشنگٹن کے مفادات اور مرضی کے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کو یلغار کا نشانہ بنانا ہے۔
یہ رویہ امریکہ کی سامراجی اور تسلط پسندانہ طینت کی غمازی کرتا ہے۔ ٹرمپ حکومت وینیزویلا کے عوام کے خلاف پابندیوں کے بھیانک نتائج کی پرواہ کئے بغیر وینیزویلا کی حکومت اور صدر نکولس مادورو کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے مقصد سے پابندیوں میں اضافے پر بدستور اصرار کر رہی ہے۔ یہ امر واشنگٹن کی پالیسیوں کی اصل ماہیت کو اجاگر کرتا ہے جو ہمیشہ آزادی و انسانی حقوق کی پاسداری اور آمریت کے چنگل سے عوام کی آزادی کے حربے کو دیگر ممالک میں اپنی مداخلت کے جواز کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔
بہرحال، امریکی رویہ پر، خاص طور سے سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد کے رویہ پر، نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے جن ممالک میں مداخلت کی ہے وہاں پابندیوں کے نفاذ اور فوجی مداخلت سمیت واشنگٹن کے اقدامات کا نتیجہ انسانی زیاں، تباہی و بربادی اور غربت کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا ہے۔