امریکہ بدستور ونزئلا کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے درپے
امریکہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ونزوئلا کے خلاف پابندیوں میں توسیع کرکے اور اس پر دباؤ بڑھا کر ونزوئلا کے صدر نیکلس مادورو کو اقتدار سے برطرف کردے اور لاطینی امریکہ کے تیل سے مالا مال اس ملک میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے اپنے مفادات کو حاصل کرے-
اسی سلسلے میں ونزوئلا کی دفاعی کونسل کے جنرل سیکریٹری پاسکوالیو فرنانڈیز Pascualio Fernandez نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ واشنگٹن کی نظریں اس ملک کے قدرتی ذخائر پر گڑی ہوئی ہیں اور اس نے ونزوئلا کے خلاف چند جہتی جنگ چھیڑ رکھی ہے کہا کہ امریکہ ایک ڈکٹیٹر کی مانند ونزوئلا کے تمام اسٹریٹیجک ذخائر پر قبضہ کرنے کے درپے ہے اور یہی مسئلہ تمام اختلافات کی وجہ اور جڑ ہے-
گذشتہ ایک سال سے ونزوئلا میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے - ایک ایسا بحران کہ جو اگر چہ اقتصادی مسائل پیدا کرنے کے بہانے سے وجود میں لایا گیا، لیکن مادورو کے مخالفین نے اسے گہرے سیاسی بحران میں تبدیل کردیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اس کے ذریعے سے مادورو کو اقتدار سے کنارہ کشی پر مجبور کردیں- اس صورتحال نے ماضی سے زیادہ ونزوئلا کے داخلی امور میں واشنگٹن کی مداخلت اورلاطینی امریکہ کے اس ملک میں اثر و رسوخ کے لئے راستہ فراہم کیا ہے-
امریکہ مدتوں سے اس کوشش میں ہیں کہ ونزوئلا کے صدر مادورو کے ملک کے اندر موجود مخالفین کی حمایت کرکے اور سیاسی و اقتصادی پابندیوں جیسے مختلف حربے استعمال کرکے اس ملک کی حکومت کا تختہ پلٹنے کا راستہ ہموار کرے- ونزوئلا کے خلاف امریکہ کی وسیع پابندیوں نے اب تک اس ملک کی معیشت کو سو ارب ڈالر کا نقصان پنہچایا ہے اور گذشتہ دوسال کے دوران ونزوئلا کے تقریبا چالیس ہزار شہری امریکہ کی غیر قانونی پابندیوں کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے واشنگٹن کے حکام بدستور ونزوئلا کے خلاف فوجی دھمکی دے رہے ہیں-
درحقیقت وائٹ ہاؤس کے حکام کی کوشش ہے کہ لاطینی امریکہ کی بائیں بازو کی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر کہ جو سامراج مخالف ہیں اور عدل و انصاف اور آزادی و خودمختاری کی امنگیں رکھتی ہیں، خود لاطینی امریکہ پر مسلط ہوجائیں اور ان کے مفادات اور مراعات سے خود بہرہ مند ہوں-
روس کے ایک فوجی سربراہ ایگور کاسٹیوکف نے اس سلسلے میں کہا کہ امریکی وزارت خارجہ سالانہ کم ازکم ڈیڑھ ارب ڈالر لاطینی امریکہ میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لئے خرچ کرتا ہے اور ممکن ہے کہ عنقریب ہی رنگین انقلاب کی ٹکنالوجیوں سے کہ جسے اس وقت وہ ونزوئلا میں بروئے کار لا رہا ہے، نیکاراگوئہ اور کیوبا کی بھی حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے لئے استعمال کرے-
ماسکو کے نقطہ نگاہ سے ، کراکاس پر دباؤ ڈالنے کے لئے واشنگنٹن کا اسٹریٹیجک مقصد ونزوئلا کے خام تیل کو حاصل کرنا ہے تاکہ اس طرح سے آئندہ کے برسوں میں تیل کی برآمدات اپنی مرضی کے مطابق انجام دے اور اوپک پر اپنے مطالبات مسلط کرے- روس کے سینئر حکام کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ حکومت ، مخالفین کے لیڈر گوائیڈو کی حمایت کرکے، اسے ونزوئلا میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے مقصد سے بطور آلہ کار استعمال کر رہی ہے- پاتروشف کہتے ہیں کہ امریکہ کو ونزوئلا میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، حکومت مخالفین کے لیڈر گوائیڈو جیسے ایک آلہ کار کی ضرورت ہے
واشنگٹن ایسے حالات میں یہ اقدامات انجام دے رہا ہے کہ ونزوئلا کے صدر مادورو کو ونزئلا کے عوام کی وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے اور وہ ملک پر پڑنے والے دوگنا دباؤ اور مختلف شعبوں میں پابندیوں کے باوجود مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں- اس وقت بھی ونزئلا کے حکام اس کوشش میں ہیں کہ وہ ان ملکوں سے جو پابندیوں کے دور سے گذر چکے ہیں اور اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، اس سلسلے میں ایک بنیادی راہ حل تک پہنچ سکیں- اور اسی سلسلے میں ونزوئلا کے حکام نے مشترکہ مفادات کے پیش نظر اسٹریٹیجک گروہوں اور اتحاد کی تشکیل کو مدنظر قرار دیا ہے-
اگرچہ واشنگٹن کے حکام بدستور دھمکی اور پابندی کی بات کر رہے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں ونزوئلا کے وزیر خارجہ کو بھی پابندی والی لسٹ میں شامل کردیا ہے لیکن ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ یہ روشیں نہ صرف یہ کہ کارآمد نہیں ہیں اور اپنی افادیت کھوچکی ہیں بلکہ ماضی سے زیادہ امریکہ کے شکست خوردہ اور کمزور ہونے اور اس کی پابندیوں کے بے اثر ہونے کی علامت ہے-
درحقیقت امریکی حکام اس کوشش میں ہیں کہ ونزوئلا کے انتخابات کو غیر قانونی ظاہر کرنے اور گوائیڈوکی حمایت کرنے کے ذریعے ایک ایسی پٹھو حکومت بر سراقتدار لائیں جو امریکی مفادات کے لئے کام کرے- نہ صرف روس اور چین بلکہ دنیا کے بہت سے دیگر ملکوں نے بھی ونزوئلا میں فوجی مداخلت کو مسترد کیا ہے اور وہ مذاکرات کے ذریعے ونزوئلا میں سیاسی بحران کے حل کے خواہاں ہیں-