May ۰۶, ۲۰۱۹ ۱۵:۵۶ Asia/Tehran
  • بولٹن کی ایران کو دھمکانے کی ناکام کوشش

ایرانی حکومت اور قوم کے خلاف امریکہ کے دشمنانہ اقدامات میں شدت آنے کے ساتھ ہی امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایک بیان جاری کر کے اسلامی جمہوریہ ایران کو فوجی دھمکی دینے کی کوشش کی ہے۔

بولٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے کچھ تشویشناک اور شدت پیدا کرنے والی اور خبردار کرنے والی علامتوں پر ردعمل میں امریکہ کی سنٹرل کمان " سینٹکام" کے علاقے میں یو ایس ایس آبراہم لینکلن بیڑا اور بمبار اسٹرائیک گروپ تعینات کر رہا ہے تاکہ ایران کو اس سلسلے میں ایک واضح پیغام مل جائے کہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف کسی طرح کے حملے کا سخت جواب دیا جائے گا-

تاہم ساتھ ہی بولٹن نے دعوی کیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن ایرانی فوجیوں کی جانب سے کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لئے پوری طرح تیار ہے- 

بولٹن کی کھلی دھمکی کو ایران کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کے تناظر میں دیکھنا چاہئے- وہ  ایران کو اشتعال دلانے اور بزعم خود ڈرانے کی کوشش کررہے ہیں- بولٹن کا خیال ہے کہ وہ  ایران کو فوجی دھمکی دے کر تہران کو کمزور پوزیشن میں لاکھڑا کریں گے اور تہران کو ایران کی قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے سے روک دیں گے تاہم اسلامی جمہوریہ نے با رہا تاکید کی ہے کہ وہ امریکہ یا اس کے علاقائی اتحادیوں کی جانب سے ہرطرح کی فوجی دھمکی اورممکنہ جارحیت کا منھ توڑ جواب دے گا- 

اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر نے  ایسے عالم میں تشویشناک اور شدت پیدا کرنے والی اور خبردار کرنے والی علامتوں پر ردعمل میں علاقے میں امریکی بحریہ اور فضائیہ کے سریع الحرکت گروپ تعینات کرنے کا دعوی کیا ہے کہ ماہرین کے اعلان کے مطابق خلیج فارس میں آبراہام لینکلن طیارہ بردار بیڑے کی تعیناتی پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت انجام  پائی ہے اور اس کا خطرات بڑھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے-

اس سلسلے میں امریکی حکومت کے سابق عہدیدار ایلن گولڈنبرگ نے لکھا ہے کہ سینٹکام کے علاقے میں ایک بیڑا بھیجنے کا عمل غیرمعمولی نہیں ہے اور معمولا مدتوں قبل طے شدہ پروگرام کے تحت انجام پاتا ہے-

درحقیقت آبراہم لینکلن طیارہ بردار بیڑے کی خلیج فارس میں تعیناتی کے سلسلے میں پہلا بیان ایک مہینے پہلے آیا تھا - آبراہم لینکلن طیارہ بردار بیڑا اور اس کے ہمراہ گروپ  اپریل کے مہینے میں میڈیٹیرین سی کے علاقے میں تعینات تھا-

 دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ بولٹن کا شمار جنگ پسند ٹولے کے سرغنوں میں ہوتا ہے جسے اس وقت گروپ بی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- اس گروپ کی کوشش ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو ٹرمپ حکومت کو ایران کے ساتھ فوجی مقابلہ آرائی کے لئے مجبور کیا جائے-

 اس سلسلے میں ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ : امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جنگ و لشکرکشی سے اجتناب کے اپنے انتخابی وعدے پر باقی رہنا چاہتے ہیں تاہم گروپ بی جو نیتن یاہو ، جان بولٹن، بن سلمان اور بن زائد پر مشتمل ہے امریکہ کو ایران کے مدمقابل لانا چاہتا ہے-امریکہ نے دوہزارسترہ کی قومی سلامتی کی اسٹریٹیجک دستاویز کے تناظر میں ایران کو کنٹرول کرنے اور مشرق وسطی میں اس کے اقدامات اور پالیسیوں کو تبدیل کرانے کے لئے بڑے پیمانے پرعلاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہے-

 اس وقت یہ علاقائی اتحاد سعودی و صیہونی اتحاد کے قالب میں تشکیل پا چکا ہے- اس کے ساتھ  ہی امریکہ اپنے ایران دشمن رویے کے تناظر میں ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب نیٹو کی تشکیل یا مشرق وسطی اسٹریٹیجک اتحاد کے قیام کی کوشش بھی کر رہا ہے-  دنیا اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں امریکی کینے و دشمنی سے بخوبی آگاہ ہے - ایران سے امریکہ کی دشمنی ، علاقے اور ایران کے سلسلے میں واشنگٹن کی مداخلت پسندانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں اور مطالبات کے سامنے تہران کے ڈٹ جانے کی وجہ سے ہے - اور ایران ، امریکہ کی اس طرح کی دھمکیوں کے باوجود استقامت و مزاحمت جاری رکھے گا-

ٹیگس