چھے مہینے میں اسرائیل کی دوسری شکست
فلسطینی استقامتی گروہوں کی جانب سے صیہونی حملوں کے منھ توڑ جواب کے نتیجے میں حالیہ چھے مہینوں کے دوران اسرائیل ، دوسری بار شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے-
صیہونی جنگی طیارے اور توپخانے گذشتہ جمعے سے غزہ پٹی کے مختلف علاقوں کو میزائلی حملوں کا نشانہ بنا رہے تھے جس کا تحریک حماس اور جہاد اسلامی فلسطین نے بھرپور جواب دیا ہے- یہ جنگ صرف چند دنوں کے بعد مصر کی ثالثی میں صلح پر منتج ہوئی اور اسرائیل ایک بار پھر جنگ بندی پر مجبور ہوگیا - اس چار روزہ جنگ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے-
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس جنگ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ صیہونی حکومت فوجیوں اور عام شہریوں کے درمیان کسی فرق کی قائل نہیں ہے- غاصب صیہونی حکومت کے حملوں میں پچیس فلسطینی شہید اور ایک سوچوّن زخمی ہوئے جن میں دوحاملہ خواتین ، دوشیرخوار بچے اور ایک بچہ شامل ہے- ان افراد ، شیرخوار بچوں اور حاملہ خواتین کی شہادت سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ صیہونی حکومت بچوں کی قاتل حکومت ہے-
دوسرے یہ کہ اس چار روزہ جنگ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اسرائیل کے پاس کوئی جنگی اسٹراٹیجی اور ٹیکٹیک نہیں ہے کیونکہ اس کا ایجنڈا صرف بمباری کرنا ہے اور وہ دفاع کے لئے بھی ساری امیدیں آئرن ڈوم سے لگائے ہوئے ہے اور یہ ایسا سسٹم ہے جس کا ناکارہ پن بارہا ثابت ہوچکا ہے-
تیسرے یہ کہ چار روزہ جنگ سے ثابت ہوگیا کہ استقامتی گروہوں کی دفاعی طاقت میں قابل توجہ حد تک اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ان چار دنوں میں غزہ پٹی سے مقبوضہ علاقوں پر چھے سو پچاس سے زیادہ میزائل فائر کئے جا چکے ہیں جنھوں نے بھاری تباہی مچائی ہے اور بدرتین میزائل بھی استقامتی گروہوں کا نیا میزائل تھا جس کی رونمائی ہوئی- ان میزائلی حملوں میں چار اسرائیلی ہلاک اور ایک سو چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں- اس چار روزہ جنگ نے استقامتی گروہوں کے میزائلوں کی ٹھیک نشانے پر لگنے کی توانائی کو بھی ثابت کردیا - استقامتی گروہوں نے اسرائیلی فوج کی ایک جیپ کو بھی نشانہ بنایا جبکہ ایک مسافر ریل گاڑی بھی استقامتی گروہوں کے میزائلوں کے نشانے پر تھی تاہم استقامتی گروہوں نے اس پر اپنا میزائل فائر نہیں کیا اور مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالی-
چوتھے یہ کہ استقامی گروہوں کے بھرپور اور منھ توڑ جواب کے نتیجے میں غزہ پٹی کے اطراف کے علاقوں کے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا یہاں تک کہ ان علاقوں کے کم سے کم پینتیس فیصد صیہونی ان میزائلی حملوں کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں-
پانچویں یہ کہ فلسطینی تجزیہ نگار یاسر عزالدین کا کہنا ہے کہ آئرم ڈوم میزائلی سسٹم کی تعیناتی اور اس کے استعمال کے باوجود فلسطنیی استقامتی گرہوں کے میزائلی حملوں کے نتیجے میں صیہونی حکومت کو ہونے والے نقصانات اس وقت سے زیادہ ہیں جب یہ میزائلی سسٹم موجود نہیں تھا اس کے صرف ایک معنی ہیں اور وہ یہ ہے کہ دماغ کی جنگ میں فلسطینی استقامت صیہونی حکومت سے کئی قدم آگے ہے-
اور آخری بات یہ ہے کہ دوہزار اٹھارہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے کے نتیجے میں نیتن یاہو کی کابینہ بکھر گئی تھی اور اسرائیلی وزیراعظم اکتوبر میں ہونے والی شکست کی تلافی کرنا چاہتے تھے لیکن اس بار انھیں اس سے بھی بدتر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اوروہ چار ہی دن میں جنگ بندی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے-