بعض ایٹمی سرگرمیوں کے دوبارہ شروع کرنے کے لئے الٹی گنتی شروع
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے اقدام ، اور یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں کوتاہی اور وعدہ خلافی انجاد دینے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ، پہلے قدم کے طور پر تہران نے اپنی بعض ایٹمی سرگرمیاں جو ایٹمی معاہدے کے دائرے میں روک دی تھیں، ان کو دوبارہ سے شروع کرے گا-
ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے پیر کے روز کہا کہ امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے اور یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں لیت و لعل اور وعدہ خلافیاں انجام دینے کے جواب میں، ایران بھی آٹھ مئی بدھ کے روز اپنے اقدامات کا اعلان کرے گا - واضح رہے کہ آٹھ مئی کو ، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکلے ہوئے ایک سال پورے ہو رہے ہیں- عراقچی نے اس امرپر تاکید کرتے ہوئے کہ ابھی ایٹمی معاہدے سے ایران کے نکلنے کا مسئلہ درپیش نہیں ہے تاہم ایٹمی معاہدے کی شق نمبر 36 کی رو سے اس معاہدے میں کئے گئے اپنے بعض وعدوں پر عملدرآمد روک دے گا- ایٹمی معاہدے کی شق 36 کے مطابق ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کئے جانے کی صورت میں ایران بھی کئے گئے اپنے بعض وعدوں کی تکمیل کا پابند نہیں ہوگا-
امریکہ، ایران کا ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے مقصد سے مئی 2018 کو اس معاہدے سے نکل گیا- ٹرمپ حکومت نے دو مرحلے اگست اور نومبر 2018 میں ایران کے خلاف ایک بار پھر ایٹمی پابندیاں عائد کردیں اور ابھی بھی یہ پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایران مخالف ایک اور اقدام میں ایران کے خلاف معطل کی جانے والے تین قسم کی ایٹمی پابندیاں دوبارہ بحال کر دی ہیں۔ چار مئی کو امریکی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے بوشہر ایٹمی بجلی گھر کی توسیع، قدرتی یورینیم کے بدلے افزودہ یورینیم کی ایران سے باہر منتقلی جیسے معاملات میں تعاون پر بھی پابندیوں کا اطلاق چار مئی سے شروع کر دیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن مقررہ حد سے زیادہ بھاری پانی کا ایران میں ذخیرہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دے گا۔ اگرچہ ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کو اندرون ملک تین اعشاریہ چھے سات فی صد تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں ایران سے ایسی تمام سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امریکہ نے یہ بیان جاری کرکے عملی طور پر چار جمع ایک رکن ملکوں کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد سے روکنے کی کوشش کی ہے جن میں ایران میں موجود فاضل بھاری پانی کی عمان منتقلی، افزودہ یورینیئم کے یلو کیک سے تبادلے اور بوشہرکے ایٹمی بجلی گھر کی توسیع میں روس کو تعاون کرنے سے روکا گیا ہے- یہ ایسی حالت میں ہےکہ ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ایٹمی مسئلے سے متعلق ایران کا قانونی حق ، جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی نگرانی میں اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں مورد تائید قرار پایا ہے-
ایٹمی معاہدے کے دیگر رکن ملکوں کی حیثیت سے یورپی یونین ، چین اور روس نے، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کا راستہ اختیار نہ کرے اور معاہدے کے تمام فریق مل کر کوشش کریں کہ امریکہ کے بغیر ایٹمی معاہدے پر عملدر آمد جاری رکھنے کا راستہ تلاش کریں- ایران نے ان ملکوں کا مطالبہ قبول کرلیا تاہم اس شرط کے ساتھ کہ ایٹمی معاہدے سے متعلق ایران کے مفادات محفوظ رہیں اور ان کی تکمیل کی جائے- اسی سلسلے میں ایران اور تین یورپی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مخصوص مالیاتی نظام ایس پی وی کے زیر عنوان ایک فریم ورک پر اتفاق کیا لیکن اس مالیاتی میکنزم پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لئے ابھی تک حالات فراہم نہیں ہوسکے ہیں-
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال تیرہ سو اٹھانوے کے آغاز پر مشہد مقدس میں حرم رضوی میں زائرین اور مجاورین کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یورپ والوں نے ایران کے ساتھ مالیاتی چینل کے قیام کے بارے میں پچھلے دنوں جو باتیں کی ہیں وہ ایک تلخ مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی سیاستداں حقیقت میں وحشی ہیں اور امریکا اور مغرب کے سیاستدانوں میں شرارت اور شطینت کوٹ کوٹ کے پائی جاتی ہے-
یورپی یونین اس بات کی مدعی ہے کہ اس نے امریکی پابندیوں کے مقابلے میں تمام یورپی بینکوں اور کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کو کہا ہے۔ اس کے باوجود توقع کے مطابق نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے- لوبلاگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک تجزیے میں، ایٹمی معاہدے کے ختم ہوجانے کے نتائج کے بارے میں یورپی یونین کو خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت یورپ، ایران کے مسئلے اور ایٹمی معاہدے کو، غیرملکی پالیسی اور سلامتی کے مسائل میں اپنی شراکت کا ایک ماڈل سمجھ رہا ہے- یورپ نے اس سمجھوتے کے حصول کے لئے کوششیں کی ہیں تاکہ عالمی سطح پرایک سیاسی بازیگر کی حیثیت سے، ماضی سے زیادہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے- ایران کے ایٹمی سمجھوتے نے یورپی ملکوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کے سامنے جھکنے کی صورت میں وہ اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے-