ٹرمپ کی لفاظیوں پر ظریف کا جواب: کیا واشنگٹن سے گند صاف کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا؟
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پیر کو امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اسلحہ مافیا کے تسلط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ اس مافیا کا مقابلہ کریں-
جواد ظریف نے ٹوئیٹر پیج پر، فاکس نیوز کے ساتھ ٹرمپ کے انٹرویو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ " امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بجا طور پر "فوجی صنعتی کمپلیکس"جو ہمیشہ امریکہ کو جنگ کرنے کیلئے اکسار رہے ہیں، سے نفرت و بیزاری کرتے ہیں لیکن جب ٹیم بی کو، مخالفین کو سفارتکاری طریقوں سے مٹانے اور جارحیت پسند لوگوں کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت کے ذریعے جنگی جرائم میں شریک ہونے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ ان کمپلیکسیز کو تقویت دینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ٹرمپ نے فاکس نیوز کے ساتھ انٹرویو کے ایک حصے میں کہ جو پیر کی صبح کو نشر ہوا ، امریکہ کی جنگ افروزی کی پالیسیوں میں ہتھیاروں کے مافیا یا نام نہاد فوجی صنعتی کمپلیکس کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی صنعتی کمپلیکس ایک طرح کا غیر سرکاری اتحاد ہے جو ایک ملک کی فوج اور مسلح افواج کے لئے فوجی سازوسامان اور ہتھیار فراہم کرنے والی دفاعی صنعتوں کے درمیان ہے- فوجی صنعتی کمپلکس کے عناصر، ایک غیر حقیقی خطرے کی تصویر پیش کرکے یا سیکورٹی کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ملک کی خارجہ پالیسی کا رخ فوجی حملے یا سیکورٹی پالیسیاں اپنانے نیز فوجی بجٹ میں اضافے کی جانب موڑ دیتے ہیں- جواد ظریف نے اس سلسلے میں ٹرمپ کے ایک انتخابی وعدے کی یاد آوری کرائی کہ جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ واشنگٹن سے ان افراد کا صفایا کردیں گے جو پس پردہ حکومت کی پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کرتے ہیں - جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹ میں مزید لکھا کہ کیا ابھی ان عناصر کا صفایا کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔ جواد ظریف نے مزید لکھا کہ یہ جو بی ٹیم کو اجازت دی جار رہی ہے کہ وہ ظالم قصابوں کو دوہنے کے ذریعے اور ان کو ہتھیار فروخت کرنے کے ذریعے ڈپلومیسی کو نابود کررہے ہیں اور جنگی جرائم میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں، تو کیا یہ فوجی صنعتی کمپلکس کو مضبوط کرنے کے سوا کچھ اور ہے-
واضح رہے کہ ٹیم بی صیہونی وزیراعظم بنیامین نتیاہو، سعودی ولیعہد بن سلمان ، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور ابو ظہبی کے ولیعہد محمد بن زائد پرمشتمل ہے کہ جن کے نام بی سے شروع ہوتے ہیں - اس کے ساتھ ہی وہ چیز جو مسلم ہے اور تجزیے سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہے کہ امریکہ اپنے توسیع پسندانہ مفادات کے تحفظ اور علاقے پر تسلط جمانے کے لئے، جنگ، فوجی بغاوت، پابندی، دھمکی جیسے تمام ہتھکنڈوں سے استفادہ کررہا ہے- یہی خفیہ و آشکارہ مسائل ہیں کہ ایران کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کی لفاظیوں کے جواب میں لکھا ہے کہ بی ٹیم کے اکسانے پر امریکی صدر ٹرمپ ایسا کام کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جسے اسکندر، چنگیز اور دیگر حملہ آور اور غاصبین انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور انھیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے ٹرمپ کو یاد دہانی کرائی ہے کہ ایرانی قوم ہزاروں سال سے کامیابی و سرافرازی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور جارح قوتوں کو میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقتصادی دہشت گردی اور نسل کشی کی رجز خوانی کرنے سے ایران کا کام تمام نہیں ہو گا کبھی کسی ایرانی کو دھمکی مت دینا، احترام سے پیش آکے دیکھو احترام کا جواب صحیح ملتا ہے-
بعض تجزیہ نگآروں کا خیال ہے کہ امریکی حکومت ایک طرح سے اس کوشش میں ہے کہ وہ ٹرمپ کو مذاکرات کا حامی ظاہر کرے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ نے ایک سال قبل بھی جب وہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوئے تھے، ایران کے خلاف بڑے جھوٹ بولتے ہوئے ایران پر دہشت گردی کی حمایت، علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ اور ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا-
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی ٹرمپ کی نازیبا اور گھٹیا باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسی وقت فرمایا تھا کہ یہ شخص یعنی ٹرمپ دسیوں آشکارہ جھوٹ بولنے کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کو دھمکی دے رہا ہے لیکن ہم پوری ایرانی قوم کی جانب سے ٹرمپ سے یہ کہتے ہیں کہ تم ایسا ہرگز نہیں کرسکوگے-
رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ ہفتے اعلی سول اور فوجی حکام کے ساتھ ملاقات میں بھی امریکہ کے خبیثانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا کہ ہر میدان میں دشمن کے مقابلے میں استقامت دکھانا، ایرانی عوام کا حتمی فیصلہ ہے کیونکہ موجودہ امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات زہر ہلاہل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جنگ نہیں ہوگی بلکہ ٹکراؤ ہوگا اور وہ بھی ارادوں کا ٹکراؤ اور اس میدان میں ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام کا عزم و ارادہ دشمن سے زیادہ مضبوط و قوی ہے اور خداوندعالم کے فضل و کرم سے اس بار بھی ہم کامیاب ہوں گے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اور ان میں سرفہرست امریکا یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ غیرمعمولی پابندیاں عائد کر کے ایران کو زک پہنچا سکتا ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا لوہا عوام اور حکام کے عزم و ہمت کی بدولت کافی مضبوط ہے۔
مسٹر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے تانے بانے بھی بننا شروع کیے ہیں جبکہ رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے-